کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 467
(الادب المفرد للبخاری باب 276 ح 609 وسندہ حسن ۔ ہدیۃ المسلمین الراقم الحروف 45،دوسرا نسخہ ص 58) لہذا اس عمل کو جاہلوں کا کام بتانا صحیح نہیں ۔( شہادت ،جون 2000ء)
سوال: (بعض) لوگ ہر نماز کے بعد امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں اور دعا مانگنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو نماز کے بعد امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگے گا،اس کی نماز نہیں ۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔ ( صبغت اللہ محمدی )
الجواب: ہر نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اجتماعی دعامانگنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں ہے، اگر مطالبہ ٔ دعا،یا کبھی کبھار دعا مانگ لی جائے تو عمومی دلائل کی رو سے جائز ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو امام کے ساتھ اجتماعی دعا نہ مانگے ،اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ان کا یہ قول باطل بلکہ ڈھٹائی ہے جس کے وہ مرتکب ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس قول سے توبہ کریں۔ متعدد علماء نے اس اجتماعی دعا کو بدعت قراردیا ہے ۔ مثلاً:
(1) ابن تیمیہ (ا لفتاویٰ الکبریٰ ج 1ص 188۔189)
(2) ابن القیم ( زادالمعاد ج 1ص 257 قال: فلم یکن ذلک من ہدیہ صلی اللّٰه علیہ وسلم اصلاو لاروی باسناد صحیح ولاحسن )
(3) الشاطبی (الاعتصام ج 1ص 252) وغیرہم بلکہ دور جدید میں بعض دیوبندیوں نے بھی اسے بدعت قراردیا ۔ دیکھئے : "رجل رشید "(ص 170،171،173) ( شہادت ، فروری 2000)
سوال: کیا یہ درست ہے کہ نماز استسقاء کے علاوہ کسی نماز کےبعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کاصحیح احادیث میں کوئی ثبوت نہیں اور احادیث میں حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شب وروز کی جو دعائیں منقول ہیں وہ ویسے ہی بغیر ہاتھ اٹھائے مانگی گئی ہیں؟ (طارق علی بروہی ، کراچی)
الجواب : نماز استسقاء کے علاوہ کسی اجتماعی دعا کا ثبوت مجھے یاد نہیں ہے تاہم عمومی دلائل کی رو سے ضرورت کے وقت اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے جیسا کہ قبل ازیں گزرچکا ہے۔ ( شہادت فروری 2000ء)