کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 458
کے کلام میں بہت زیادہ تخلیط واضطراب ہے۔ تاہم ان کا یہ دعوی بالکل باطل ہے کہ یہ حدیث بقیہ کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کی۔حالانکہ ابن اخی الزہری نے بھی یہی روایت بیان کر رکھی ہے ۔ ( دیکھئے مسند احمد 2؍133،134) اور بقیہ کے بارے میں بھی حق یہی ہے کہ وہ صدوق وحسن الحدیث ہیں بشرطیکہ سماع کی تصریح کریں ۔
محدثین کے اس فہم کی تائید ان آثار سے بھی ہوتی ہے جن میں تکبیرات عیدین میں رفع یدین کا ثبوت موجود ہے ۔
1)امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ تمام تکبیروں کے ساتھ (عیدین میں) رفع یدین کرنا چاہیے ۔(احکام العیدین للفریابی ص 182 ح 132واسنادہ صحیح)
2)امام مالک رحمہ اللہ نے بھی فرمایا کہ تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہیے اور (لیکن) میں (امام مالک) نے اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں سنا۔ (احکام العیدین ح 137 واسنادہ صحیح)
3) 4) امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا چاہیے۔ (الامام ج 1ص 237 ،مسائل احمد روایۃ ابی داؤد ص59۔60)
حنفیہ میں سے محمد بن الحسن الشیبانی سے بھی یہی موقف مروی ہے ۔ ( الاوسط لابن المنذر ج4ص282،الاصل ج1ص 374،375)
اس مسئلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک ضعیف روایت بھی مروی ہے:
" حدثنا موسي بن هارون قال: ثنا اسحق بن عيسي قال: ثنا اسحاق بن عيسي قال: ثنا ابن لهيعة عن بكر بن سوادة عن ابي زرعة اللخمي قال: كان عمر بن الخطاب يرفع يديه في كل تكبير ة من الصلوة علي الجنازة وفي الفطر والاضحي"
(الاوسط لابن المنذر 4؍282،السنن الکبریٰ للبیہقی 3؍293 وقال: " ھذا منقطع")
سند کا مختصر تعارف :
ابو زرعہ اللخمی ، قسطنطنیہ پر حملہ آور مسلم جرنیلوں میں سے تھا۔( مختصر تاریخ دمشق لابن منظور ج 28،ص 325، 326)