کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 45
ساتھ ہے۔ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ میں روایت کیا ہے جس کی صحت پر اُمت کا اتفاق ہے۔اسی حدیث کے حوالے سے اس کے راوی امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: "وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ صَوْتَ اللّٰه لا يشبه أَصْوَاتَ الْخَلْقِ....." اور اس میں دلیل ہے کہ اللہ کی آواز(صوت) مخلوق کی آوازوں سے مشابہ نہیں ہے۔(خلق افعال العباد ص 92 فقرہ:462) حدیث مذکور کی تشریح میں مولانا محمد داود رازدہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہاں سے اللہ کےکلام میں آواز ثابت ہوئی اور ان نادانوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ آواز ہے نہ حروف ہیں۔معاذ اللہ، اللہ کے لفظوں کو کہتے ہیں:یہ اللہ کے کلام نہیں ہیں کیونکہ الفاظ اور حروف اور اصوات سب حادث ہیں۔امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ کم بخت لفظیہ جہمیہ سے بدتر ہیں۔‘‘(شرح صحیح بخاری 8 ص 592 مطبوعہ قدوسیہ لاہور) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:جی ہاں!تیرے رب نے صوت(سُنی جانے والی آواز) کے ساتھ کلام فرمایا:الخ(کتاب السنہ ج 1 ص 280 رقم 533) مزید عرض ہے کہ امام ابوبکر المروزی رحمہ اللہ نے فرمایا: (امام) ابو عبداللہ(احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے کہاگیا:عبدالوہاب رحمہ اللہ نے کہا :جو شخص کہتا ہے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے بغیر صوت(آواز) کے کلام کیا تو وہ جہمی ہے، اللہ اور اسلام کا دشمن ہے۔(امام احمد رحمہ اللہ ) ابوعبداللہ نے مسکرا کر فرمایا:اس(عبدالوہاب) کا یہ قول کتنا بہترین ہے ،اللہ اُسے عافیت میں رکھے۔ (السنہ للخلال بحوالہ درء تعارض العقل والعقل ج 1 ص 360 وسندہ صحیح،مطبوعہ:دارالحدیث القاہرہ؍مصر) حافظ ابو نصر عبیداللہ بن سعید بن حاتم بن احمد السجزی الوائلی رحمہ اللہ (متوفی 444ھ) نے اپنے مشہور رسالے میں فرمایا:اس پر اتفاق ہے کہ کلام حرف اورصوت ہوتا ہے۔