کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 445
دوران خطبہ سلام کا جواب دینا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں ۔ (اشفاق احمد) الجواب: نماز کی حالت میں سلام اور اس کا جواب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ۔ دیکھئے صحیح مسلم (540)سنن ابی داؤد (927)،السنن الکبری للبیہقی (ج 2ص259) اور مصنف ابن ابی شیبہ (ج 2ص 74) وغیرہ ۔ جب نماز میں سلام کا جواب جائز ہے تو دوران خطبہ میں بطریق اولی سلام کا جواب جائز ہے تو دوران خطبہ میں بطریق اولی سلام کا جواب جائز ہے ۔ ( شہادت ، جون 2001) حالت خطبہ میں دو رکعت نماز سوال: درج ذیل الفاظ سے مشہور حدیث کے بار ے میں تحقیق درکار ہے : " اذا صعد الخطيب المنبر فلايتحدثن احدكم ومن يتحدث فقد لغاومن لغا فلاجمعة له ، انصتوا لعلكم ترحمون " اس حدیث کی تحقیق کے تحت مسئلہ کی محقق ومدلل وضاحت بھی فرمادیں ۔جزاکم اللّٰه خیرا۔ ( ذکاء الرحمن ذکی ( درجہ سابعہ ) دارالعلوم تقویۃ الاسلام ۔اوڈانوالہ ۔ضلع فیصل آباد ) الجواب: یہ روایت مجھے حدیث کی کتاب میں سند کے ساتھ نہیں ملی ۔ اسے شیخ عبدالمتعال (بن محمد ) الجبری نے اپنی کتاب "المشتهر من الحديث الموضوع والضعيف والبديل الصحيح " میں ذکر کیا ہے ۔( 168 ،وموسوعۃ الآحادیث والآثار الضعیفہ والموضوعۃ ج1ص 503 ح 1625) شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا :" باطل ‘ قداشتهر بهذا الفظ علي الالسنة وعلق علي المنابر ولااصل له " یہ روایت باطل ہے۔ یہ زبانوں پر مشہور ہے اور منبروں پر اسے لکھ کر لٹکایا جاتا ہے۔اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ 1؍ 122ح 87) اس بے اصل اور موضوع روایت کے دو شاہد ( تائید والی روایتیں) ہیں :