کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 441
بقول جہاں جائیداد ہو وہاں نماز مکمل پڑھنی پڑے گی) اب سوال یہ ہے کہ نماز قصر کے لیے علت سفر ہے یا ذاتی جائیداد کا نہ ہونا اس کی بھی وضاحت کردیں۔
نیز یہ بھی بتائیے کہ میری زوجہ اپنے والدین کے گھر میں نماز قصر ادا کرے یا مکمل ادا کرے یا اس کو بھی والد کی جائیداد کے حصہ دار ہونے کے لحاظ سے نماز مکمل پڑھنی پڑے گی ؟ ( حفیظ الرحمن ،اسلام آباد )
الجواب : صورت مسؤلہ میں آپ کے لیے بہتر اور راجح یہی ہے کہ ذاتی گھر اور اسلام آباد، دونوں جگہ پوری نماز پڑھیں ۔ چونکہ سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز ہے اور آپ کا مسئلہ اجتہادی ہے، لہذا شک سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دونوں جگہ نماز پڑھی جائے ۔ سفر میں پوری نماز پڑھنا۔ سیدنا عثمان اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے ۔ بلکہ سنن نسائی ( ج 3ص 122 ح 1457)وسنن دار قطنی (ج 2ص 188) کی ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں پوری نماز پڑھنے کو احسن یعنی اچھا قراردیا ہے ۔
اس روایت کو امام دارقطنی نے حسن کہا ہے ۔العلا بن زہیر جمہور کے نزدیک ثقہ راوی تھے اوران پرحافظ ابن حبان کی جرح مردود ہے ۔اس روایت کے کئی شواہد بھی ہیں ، مثلا دار قطنی (2؍188ح 2275) اور بیہقی (3؍141) نے صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں نماز پڑھی ہے ۔ اسے امام دارقطنی " اسنادہ صحیح " کہا ۔اس کا راوی سعید بن محمد بن ثواب ہے جس سے ایک جماعت روایت کرتی ہے ۔اسے دارقطنی نے صحیح الحدیث یعنی ثقہ قراردیا ہے ۔امام ابن حبان نے کتاب الثقات (ج 8ص 272) میں " مستقیم الحدیث" کہا ہے، لہذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا ارواء الغلیل (ج 3ص7)میں اسے " مجہول الحال " کہنا صحیح نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ راجح قول کے مطابق سفر میں قصر کرنا افضل ہے اور پوری نماز پڑھنا جائز ہے،لہذا شک سے بچتے ہوئے آپ دونوں مقامات پر پوری نماز پڑھیں ۔
اور یہی حکم آپ کی زوجہ کے لیے ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر میں پوری نماز پڑھیں گی ۔ واللہ اعلم ( شہادت ، فروری 2002ء)