کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 440
تنبیہ : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں وفات تک قصر کرنا بھی ثابت ہے۔ ( دیکھئے صحیح بخاری 1102 وصحیح مسلم :1579؍679) مشہور تابعی ابوقلابہ ( عبداللہ بن زید الجرمی ) نے فرمایا : "ان صليت في السفر ركعتين فالسنة وان صليت اربعا فالسنة " ’’ اگر تم سفر میں دو رکعتیں پڑھو تو سنت ہے اور اگر چار رکعتیں پڑھوتو بھی سنت ہے ۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ 2؍452ح 8188 وسندہ صحیح ) عطا ء بن ابی رباح نے فرمایا کہ: اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر چاہو تو پوری نماز پڑھ لو۔ (ابن ابی شیبہ 2؍452 ح8191 وسندہ صحیح ) سعید بن المسیب نے فرمایا : اگر چاہو تو دو رکعتیں پڑھو اور اگر چاہو تو چار پڑھو۔ ( ابن ابی شیبہ 2؍452 ح 8192 وسندہ صحیح ) امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا :"ا لتَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلاَةَ أَجْزَأَ عَنْه " سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور اگر کوئی پوری نماز پڑھے تو جائز ہے۔ (سنن الترمذی :544) امام ترمذی سے امام شافعی تک، ان اقوال کی صحیح سندوں کے لیے دیکھیں کتاب العلل للترمذی مع الجامع (ص 889) والحمدللہ ( 27 ؍ذوالحجہ 1426ھ) ( الحدیث :23) آبائی گھر میں قصر نماز کا حکم سوال: میں اسلام آباد میں گورنمنٹ ملازم ہوں ۔ جب کہ میرا اصل ذاتی گھر فیصل آباد میں ہے ۔اسلام آباد میں رہتے ہوئے تو میں نماز مکمل ادا کرتا ہوں،اگر فیصل آبا د میں دو یا تین دن کے لیے جاناہوتو وہاں قصر ادا کروں یا مکمل ؟ ( جبکہ بعض شیوخ سے پوچھا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بھی مکمل نماز پڑھنی پڑے گی اور فیصل آباد میں بھی مکمل ، البتہ دوران سفر میں قصر پڑھوگے ، مکمل نماز پڑھنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں میں ملازم ہوں اور فیصل آباد میں مکمل پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں میرا ذاتی گھر ہے اور ان کے