کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 44
(قرآن پڑھنے لکھنے کی حالت میں) بندوں کی آوازیں اور حرکات،مصحف کے ورقے، جلد اور لکھنے کی سیاہی یہ سب مخلوق ہیں اور پڑھے سنے لکھے جانے والے حروف اللہ کا کلام ہیں، اپنے حروف اور معانی کے لحاظ سے قرآن مخلوق نہیں۔
کلام اللہ کے بارے میں یہ سلف صالحین رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے۔
(العقیدۃ السلفیۃ فی کلام رب البریہ وکشف اباطیل المبتدعۃ الردیہ ص63۔65 مترجماً ومفہوماً)
فرقہ اشعریہ کے امام ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ (متوفی 324ھ) نے فرمایا:
’’قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔‘‘ پھر انھوں نے اس پر کئی دلیلیں پیش کیں۔دیکھیے الابانہ عن اصول الدیانہ (ص 19۔21)
تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں بعض مبتدعین نے حرف اور صوت کا صریح انکار کرکے نیا مسئلہ کھڑاکردیا ۔دیکھئے مجموع الفتاویٰ(12؍579)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا تو اسے ایک نیکی ملے گی جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی،میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی:2910 وقال:"هذا حدیث حسن صحیح غریب"وسندہ حسن)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قرآن سیکھو اور اس کی تلاوت کرو،تمھیں ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملیں گی۔الخ(المعجم الکبیر للطبرانی 9؍140 ح8649 وسندہ حسن)
سیدنا ابو سعیدالخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَيُنَادَى بِصَوْتٍ: إِنَّ اللّٰه يَأْمُرُكَ .....))پھر وہ(اللہ) صوت(آواز) سے ندا فرمائے گا:بے شک اللہ تجھے حکم دیتا ہے۔۔۔(صحیح بخاری :7483)
فائدہ: روایت مذکورہ کو اکثر راویوں نے معلوم(يُنَادَى)کے اعراب کےساتھ پڑھا ہے۔ دیکھئے عمدۃ القاری (ج25ص154) اور فتح الباری(13؍460)
یعنی جمہور راویوں کے نزدیک اس کا اعراب مجہول نہیں بلکہ معلوم(دال کی زیر) کے