کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 439
حافظ ابن حبان کی جرح مردود ہے ،لہذا بعض علماء کا اس حدیث کو’’منکر‘‘ یا ضعیف کہنا غلط ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ وَيَقْصُرُ، وَيَصُومُ وَيُفْطِرُ، " ’’ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے۔ روزہ رکھتے بھی اور نہیں بھی رکھتے تھے۔‘‘ ( سنن الدار قطنی 2؍189 ح 2275 وقال:" وهذا اسناد صحيح ") اس روایت کی سند صحیح ہے۔ سعید بن محمد بن ثواب سے شاگردوں کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ،دیکھئے تاریخ بغداد (9 ؍95) حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کرکے کہا : " مستقيم الحديث " یعنی وہ ثقہ ہیں ۔ (ج 8ص276) حافظ دارقطنی نے ان کی بیان کردہ سند کو صحیح کہہ کر اسے ثقہ قراردیا ۔ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان سے روایت لی ہے ۔ (2؍134 ح 1062) لہذا انھیں مجہول وغیر موثق قراردینا غلط ہے ۔ تنبیہ : عطاء بن ابی رباح پر تدلیس کا الزام باطل ومردود ہے ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ " أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ وَيَقْصُرُ " ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پوری نماز بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی کرتے تھے۔‘‘ (سنن الدار قطنی 2؍189 ح 2276 وقال: " المغيره بن زياد ليس بالقوي " شرح معانی الآثار1/415 ومصنف ابن ابی شیبۃ 2/452 ح 818 وسندہ حسن ) مغیرہ بن زیاد جمہور کے نزدیک موثق راوی ہیں ،لہذا ان پر "ليس بالقوي" والی جرح مردود ہے ۔ خلاصہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں پوری نماز پڑھنے کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں پوری نماز پڑھنا ثابت ہے۔ ( مثلا دیکھئے صحیح بخاری :1090 وصحیح مسلم :1572؍685)