کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 438
( دیکھئے لسان المیزان (ج 4ص210)
حافظ ہیثمی نے کہا :"وفيه عكرمة بن ابراهيم وهو ضعيف " ( مجمع الزوائد 2؍ 156)
اس کے برعکس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے منی ٰ میں نماز پوری پڑھنے کے بعد خطبہ میں ارشادفرمایا: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ السُّنَّةَ سُنَّةَ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُنَّةُ صَاحِبَيْهِ، وَلَكِنَّهُ حَدَّثَ الْعَامَّ مِنَ النَّاسِ فَخِفْتُ أَنْ يَسْتَنُّوا "
’’اے لوگو! سنت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں ( سیدنا ابوبکر اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ) سے ثابت ہے ۔ لیکن اس سال لوگوں کی وجہ سے رش ہوا ہے لہذا مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ لوگ اسے ہی اپنا نہ لیں ( یعنی اپنے گھروں میں بھی چار کے بجائے دو فرض پڑھنے نہ لگیں ۔) السنن الکبریٰ للبیہقی ج3 س144 وسندہ حسن وانظر معرفۃ السنن والآثار 2؍ 429)
اس سے معلوم ہواکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے سفر میں نماز پوری پڑھی تاکہ ناسمجھ لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔
یاد رہے کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جیسا صحیح احادیث وآثار صحابہ سے ثابت ہے۔
اگر کسی شخص کا سسرال دوسرے شہر اور سفر کی مسافت پر ہوتو بہتر یہی ہے کہ وہاں قصر کرے لیکن پوری بھی پڑھ سکتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ آپ ( سفر میں ) قصر کرتے رہے اور میں پوری (نماز) پڑھتی رہی۔ آپ نے روزے نہیں رکھے اور میں روزے رکھتی رہی؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " احسنت ياعائشه ! " اے عائشہ تو نے اچھا کیا ۔
( سنن النسائی ج3 ص122 ح 1487 وسندہ صحیح ، سنن الدارقطنی 2؍187 ح 2270 وقال: "وهو اسناد حسن "وصححہ البیہقی 3؍142)
اس روایت کے راوی العلاء بن زہیر جمہور محمدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق تھے ۔ان پر