کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 434
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ نجم پڑھ کر سنائی توآپ نے(سن کر) سجدہ نہیں کیا۔‘‘(صحیح بخاری :1073 صحیح مسلم: 577؍106) اس حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوا کہ سجدۂ تلاوت سنت ہے واجب نہیں ہے۔ خلیفۂ راشد امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر فرمایا : ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ، فَمَنْ سَجَدَ، فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ، فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ ) ’’ اے لوگو ! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پس جو کوئی سجدہ کرے تو اس نے اچھا کیا اور جو سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ ( صحیح بخاری :1077) کسی صحابی سے خلیفہ ٔراشد کے اس فتوے کا انکار مروی نہیں ہے لہذا ثابت ہوا کہ خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کے نزدیک سجدہ ٔتلاوت واجب نہیں بلکہ سنت ہے ۔ ( رضی اللہ اجمعین ) شیخ محمود بن احمد العینی ( متوفی 855ھ ) لکھتے ہیں : وَذهب الشَّافِعِي وَمَالك فِي أحد قوليه وَأحمد وَإِسْحَاق وَالْأَوْزَاعِيّ وَدَاوُد إِلَى: أَنَّهَا سنة، وَهُوَ قَول عمر وسلمان وَابْن عَبَّاس وَعمْرَان بن الْحصين، وَبِه قَالَ اللَّيْث وَ۔۔۔۔الخ شافعی ،ایک قول میں مالک ،احمد بن حنبل ۔اسحاق بن راہویہ ،اوزاعی اور داود کی تحقیق یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت سنت ہے اور یہی قول عمر، سلمان فارسی ،ابن عباس اور عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) کا ہے اور اسی پر لیث بن سعد نے فتویٰ دیا ہے۔ ( عمدۃ القاری ج7 ص95) بعض لوگ جو سجدۂ تلاوت کو واجب کہتے ہیں (اپنے زعم میں )حدیث مرفوع "السجدة علي من سمعها وعلي من تلاها" سجدہ اس پر ہے جو اسے سنے اور سجدہ کی آیت تلاوت کرے۔ (الہدایہ مع الدرایہ ج1ص 163،باب فی سجود التلاوۃ) سے استدلال کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ حدیث رسول نہیں ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ صحابی کی طرف منسوب قول ہے ۔