کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 432
حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ روایت سنن ابی داؤد (1297) اور ابن ماجہ (1387) میں موجود ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ اور اسے ابو بکر الآجری وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۔(الترغیب والترہیب 1؍ 4671) حکم بن ابان کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی ۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے الترشیح لبیان صلوۃ التسبیح (ص 28۔33 مع التخریج ) اور کتب الرجال ۔ حدیث الانصاری رضی اللہ عنہ یہ روایت سنن ابی داود (1299) میں موجود ہے،اس کی سند انصاری تک صحیح ہے اور انصاری سے مراد جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔ دیکھئے تہذیب الکمال (3؍ 1666) و الفتوحات الربانیہ (4؍314 وحاشیۃ الترشیح ص49) حدیث عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما یہ روایت سنن ابی داود (1298) میں ہے۔ عمران بن مسلم نے عمروبن مالک کی متابعت کر رکھی ہے ۔ (النکت الظراف 6؍281) حسن لذاتہ روایت کے اگر شواہد ہوں تو وہ صحیح لغیرہ بن جاتی ہے، لہذا نماز تسبیح والی روایت صحیح ہے ۔ والحمد للہ ( شہادت جنوری 2003) نماز استسقاء کا طریقہ سوال: بلوغ المرام باب الاستسقاء میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء نماز عید کی طرح پڑھی ۔( رواہ الخمسہ وصححہ الترمذی وابو عوانہ وابن حبان ) اولا : روایت ہذا کی (الف) تخریج درکار ہے ۔ ثانیا : کیا اس روایت سے نماز استسقاء نماز عید کی طرح ( زائد تکبیرات کے ساتھ) ادا کرنی ثابت وصحیح ہے؟ (تنویر سلفی،ضلع ایبٹ آباد) الجواب : یہ روایت کہ " ثم صلي ركعتين كما يصلي في العيد "الخ بلحاظ سند حسن ہے ۔اسے ابوداود ( کتاب الصلوۃ ، باب جماع ابواب صلوۃ الاستسقاء