کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 431
صلاۃ التسبیح میں کسی خاص سورت کی تحدید ثابت نہیں ہے جو میسر ہو پڑھ لیں ۔ ( دیکھئے سورہ المزمل :20 ) احادیث مرفوعہ سے ،اس نماز میں جلسہ ٔاستراحت کا ذکر صراحتا موجود ہے، لہذا بعض علماء ( مثلا ابن المبارک ) کے عمل کی بنیاد پر جلسہ ترک نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی تحقیق عبدالحئی لکھنوی حنفی کی ہے ۔( الآثار المرفوعۃ بحوالہ تحفۃ الاحوذی ج1ص 351) محقق اہل حدیث مولانا خواجہ محمد قاسمرحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ نیز معلوم ہونا چاہیے نماز تسبیح باجماعت کا ہرگز کوئی ثبوت نہیں ہے ،نہ مردانہ کا، نہ زنانہ کا ۔ زنانہ کا ذکر میں نے خاص طور اس لیے کیا ہے کہ آج کل اس کا زیادہ شوق چرایا ہوا ہے ۔ یہ عام طور پر ماہ رمضان میں چاشت کے وقت باجماعت نماز تسبیح پڑھتی ہیں ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ رمضان کا ذکر ہے ۔نہ جماعت کا ذکر ہے ،نہ چاشت کا ذکر ہے ۔‘‘ ( حی علی الصلوۃ ص 197) حنفیوں کے نزدیک ویسے بھی تراویح کے علاوہ نفلوں کی جماعت مکروہ ہے ۔ بعض لوگوں نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرکے نماز تسبیح کی جماعت کو جائز قراردیا ہے ۔جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چاشت کی نماز پڑھائی تھی ۔( مسنداحمد 3؍43ح 16479) راجح یہی ہے کہ عمومات سے استدلال کی بجائے نص کو اپنے مورد پر خاص سمجھا جائے ۔ ورنہ کوئی ’’حضرت " اگر سنن راتبہ مثلا رکعات الظہر وغیرہ کی جماعت شروع کردے تو اسے کس دلیل سے منع کریں گے ؟ (واللہ اعلم بالصواب ) ( شہادت ، ستمبر 1999) سوال: صلوۃ التسبیح کی روایات کے بارے میں البانی نے بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بہت مشکل سے ’’حسن ‘‘ کے درجے میں لائے ہیں۔جب کہ آپ نے ’’ ھدیۃ المسلمین‘‘ کتاب (ص۷۱) میں بغیر کسی تفصیل کے صحیح قرار دیا ہے،تفصیل چاہیے۔(حبیب اللہ،پشاور) الالجواب : صلوۃ التسبیح کے سلسلے میں درج ذیل احادیث بلحاظ سند مضبوط ہیں: