کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 43
ہے اور یہ اُس کاحقیقی کلام ہے غیر کا کلام نہیں،اُسی سے اس کی ابتدا ہوئی اور اسی کے پاس لوٹ جائے گا۔ وہ ایک نازل شدہ قرآن ہے ،مخلوق نہیں ہے،جس طرح بھی اُس میں تصرف کیاجائے،قاری کی قراءت الفاظ پڑھنے والے کے الفاظ،حافظ کا حفظ یاکاتب کا خط ہو، جہاں بھی اس کی تلاوت ہولکھا جائے یا پڑھا جائے۔
پھر جوشخص اس کو سننے کے بعد یہ سمجھے کہ یہ مخلوق ہے تو اس شخص نے کفر کیا (یعنی یہ شخص کافر ہے) اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے آدم علیہ السلام کی پیدائش سے چالیس سال پہلے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
اللہ کے کلام کی تقسیم،حصص اور اجزاءہوسکتے ہیں ،پس قرآن اس کے کلاموں میں سے ہے، تورات اس کے کلام میں سے ہے اورانجیل اُس کے کلام میں سے ہے،قرآن تورات کے علاوہ ہے اور تورات انجیل کے علاوہ ہے۔ فاتحہ قرآن کا بعض ہے اور یہ آیت الکرسی سورۃ البقرہ کا بعض ہے، سورۃ البقرۃ سورت آل عمران کےعلاوہ ہے اور اسی طرح اس کا سارا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف لغات(زبانوں) میں کلام فرمایا لہٰذا تورات عبرانی زبان میں ہے، انجیل سریانی زبان میں ہے اور قرآن عربی زبان میں ہے۔قرآن میں ایسے معانی ہیں جو تورات میں نہیں ہیں اور تورات میں ایسی باتیں ہیں جو قرآن میں نہیں ہیں اور اسی طرح اس کا سارا کلام ہے۔
اللہ تعالیٰ کے کلام میں بلحاظ افضلیت درجے ہیں لہذااُس کا بعض دوسرے بعض سے ا فضل ہے۔ دوسری آیات سے آیت الکرسی افضل ہے اور سورۃ فاتحہ جیسی سورت تورات اورانجیل میں نازل نہیں ہوئی اور نہ اس طرح دوسری کوئی سورت قرآن میں نازل ہوئی ہے،قل ھو ا للہ احد (سورۃ الاخلاص) ایک تہائی قرآن ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کلام ایک دوسرے کے پیچھے آتا(یعنی باہم ترتیب کے ساتھ مربوط) ہے مثلاً بسم اللہ میں اللہ کا کلام بسم کے بعد ہے، سین باء کے بعد ہے اور میم سین کے بعد ہے۔ یہ سب اللہ کا کلام ہے، اپنے الفاظ اور حروف کے ساتھ مخلوق نہیں، مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔