کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 429
1) الانصاری سے مراد جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہیں ۔جیسا کہ حافظ مزی نے تہذیب الکمال ( قلمی 3؍1666) میں اور حافظ ابن حجر نے" الامالی " میں صراحت کی ہے۔ ( تخریج الترشیح لبیان صلاۃ التسبیح ص 49،الفتوحات الربانیہ ج 4ص 314)
2) عروہ بن رویم : آپ کو ابن معین ، دحیم الشای اور نسائی وغیرہم نے ثقہ کہا ہے ۔ دیکھئے تہذیب الکمال (5؍153)
صرف مرسل روایات بیان کرنے کا الزام ہے جو کہ اصول حدیث کی رو سے کوئی جرح نہیں ہے، لہذا آپ کے بارے میں اعدل الاقوال یہ ہے کہ آپ ثقہ ہیں ۔
3) محمد بن مہاجر الانصاری صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(التقریب:6331)
4) ابو توبہ الربیع بن نافع صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی اور ’’ ثقہ حجۃ عابد ‘‘ ہیں۔ ( تقریب التہذیب :1902)
لہذا یہ حدیث صحیح ہے ۔اس کا متن سابق حدیث کے مشابہ ہے۔
حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُفْيَانَ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَبْدُ اللّٰه بْنُ عَمْرٍو، الخ ( سنن ابی داود: 1298)
اس کی سند ضعیف ہے ۔ راویوں کا تعارف درج ذیل ہے :
عبداللہ بن عمر بن العاص مشہور جلیل القدر صحابی ہیں۔
ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ کتب ستہ کے راوی اور ثقہ ہیں ۔ (التقریب :577،الکاشف 1؍90)
عمر بن مالک النکری کی کمزور توثیق حافظ ابن حبان نے کی ہے جبکہ بخاری ۔ابن عدی نے جرح کی ہے ۔ راجح یہی ہے کہ النکر ی مذکور ضعیف ہے ۔
جبکہ عمران بن مسلم نے اس کی متابعت کر رکھی ہے ۔ ( النکت الظر اف ج 2 ص281)