کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 427
اس حدیث کے راویوں کا تذکرہ درج ذیل ہے:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں ۔
عکرمہ ابو عبداللہ ، مولی ابن عبا س، ان کی حدیث مسلم میں مقرونا ً اور صحیح بخاری وسنن اربعہ میں بطور حجت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : "ثقة ثبت، عالم بالتفسير ‘ لم يثبت تكذيبه عن ابن عمر ولا تثبت عنده بدعة " ( تقريب التہذيب : ٤٦٧٣)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: " ثقة ثبت اعرض عنه مالك واحتج به الجمهور‘ كان يري السيف فيما بلغنا " ( رساله في الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لايوجب الرد، ص ١٨)
امام مالك كا اعراض كرنا ان کے ضعیف ہونے دلیل نہیں ۔اور " یری السیف " کی تردید حافظ ابن حجر نے کردی ہے، لہذا عکرمہ مذکور کے متعلق اعدل الاقوال یہ ہے کہ وہ صحیح الحدیث ہیں ۔
3) الحکم بن ابان ، سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں ،ابن معین ،ابن نمیر ،ابن المدینی ،احمد بن حنبل ۔ العجلی المعتدل اور نسائی وغیرہم نے انھیں ثقہ قراردیا ہے ۔
دیکھئے تہذیب الکمال ( 2؍ 239 بتحقیق بشار عواد )
ان پر ابن حبان ، ابن خزیمہ ،ابن عدی اور عقیلی کی جرح مردود ہے۔
حافظ ذہبی نے کہا: "ثقة ‘صاحب سنة "الخ (الكاشف ج ١ص ١٨١)
آپ کے بارے میں جمہور کی توثیق کو مدنظر رکھتے ہوئے اعدل الاقوال یہ ہے کہ آپ حسن الحدیث ہیں ۔
4) موسی بن عبدالعزیز،آپ سے ایک جماعت نے حدیث بیان کی ہے ۔ابن معین ۔نسائی ،ابوداود،ابن شاہین وغیرہم جمہور نے توثیق کی ہے ۔ صرف ابن المدینی اور السلیمانی کی جرح ملتی ہے جو کہ جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے، لہذا آپ حسن الحدیث ہیں ۔
5) عبدالرحمن بن بشر بن الحکم ، صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہما کے راوی اور ثقہ ہیں ۔ ( تقریب التہذیب :۳۸۱۰)