کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 423
اول الذکر روایت کا تعلق عدم وجوب سے ہے ۔ عدم وجود یا عدم استحباب سے نہیں ۔
والحق احق ان یتبع
آخر میں عرض ہے کہ’’حدیث اور اہل حدیث ‘‘نامی کتاب کا مصنف انوار خورشید اپنے اسلاف حسن بن زیاد اللؤلؤی، بشر بن غیاث المریسی اور محمد بن شجاع الثلجی وغیر ہم کی طرح سخت کذاب اور وضاع ہے۔
انوار خورشید کے کذاب ہونے کی دلیل نمبر 1:
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں صفیں قائم کرتے وقت ایک دوسرے کے قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاتے تھے ۔
(صحیح البخاری وغیرہم۔حدیث اور اہل حدیث طبع مئی 1993ءص 509)
اور ( روایت ہے کہ) جو شخص کندھے سے کندھا نہ ملاتا اسے’’ بدکاہوا خچر ‘‘ قرار دیتے تھے ۔ (دیکھئے حدیث اور اہل حدیث ص515 بحوالہ فتح الباری ج 2ص353)
ان صحیح آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑاتے ہوئے انوار خورشید نے لکھا ہے کہ ’’ نیز غیر مقلدین کو چاہیے کہ گردن سے گردن بھی ملایا کریں کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بھی ذکر ہے ۔‘‘ (حدیث اور اہل حدیث ص519)
حالانکہ کسی حدیث میں بھی گردن سے گردن ملانے کا ذکر نہیں ۔((وحاذوا بالاعناق)) کا مطلب ’’اور گردنوں کو برابر رکھو‘‘ہے گردنیں ملانا نہیں ۔
انوار خورشید نے لکھا ہے کہ ’’ پھر حضرت امام ابو حنیفہ اورامام بخاری رحمہا اللہ دونوں بزرگ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں ۔‘‘ (حدیث اور اہلحدیث ص23)
یاد رہے کہ بعد میں انوار خورشید نے اپنی کذب بیانی کو محسوس کرتے ہوئے ’’ حدیث اور اہل حدیث‘‘ کے تازہ ایڈیشن یا ایڈیشنوں میں سے یہ عبارت نکال کر لکیریں ڈال دی ہیں مثلا: دیکھئے حدیث اور اہل حدیث ( طبع سادس ، جولائی 1997ء)