کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 421
اس کی سند حسن ہے۔ اسے شعیب یا ابو شعیب کی ’’ جہالت ‘‘ قراردے کر ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ۔اس روایت کےآخر میں لکھا ہوا ہے کہ وَرَخَّصَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ " اور آپ نے عصر کے بعد دو رکعتوں کی اجازت دی۔ چونکہ روایت کا یہ حصہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے مذہب کے خلاف ہے، لہذا وہ یہودیوں کی تقلید کرتے ہوئے اسے چھپالیتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مغرب سے پہلے دو رکعتوں کو نہ دیکھنا ،ان رکعتوں کے عدم وجود کی دلیل نہیں کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھی ہیں اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور منع نہیں فرمایا ۔( دیکھئے صحیح البخاری :503۔ 635وصحیح مسلم : 836837 وغیرہما ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کیوں فرماسکتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا : (صلوا قبل المغرب ) ’’مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔ ‘‘( صحیح البخاری :1183) یاد رہے کہ اس حدیث کے آخری ٹکڑے " لمن شاء" کے مطابق یہ حکم وجوبی نہیں بلکہ استحبابی ہے ۔ عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قبل المغرب ركعتين " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں ۔ (صحیح ابن حبان ، موارد الظمآن:617 وھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم مختصر قیام اللیل للمروزی ۔اختصار المقریزی ص64 وقال النیموی : واسنادہ صحیح ،آثار السنن حدیث: 694) ظاہر ہے کہ دو سچے گواہوں میں سے جو گواہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے ،اس کی بات اس گواہ کے مقابلے میں سچ اور حق تسلیم کی جائے گی جو کہتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا ۔ کیونکہ عدم رؤیت بعض ، عدم وجود پر دلیل نہیں ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عدم رؤیت بعض عدم وجود پر دلیل نہیں ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عدم رؤیت سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ دو رکعتیں پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کا عدم وجوب والی روایت کو عدم وجود والی دلیل بنالینا ہر لحاظ سے غلط اور باطل ہے ۔