کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 42
سلف صالحین رحمہ اللہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے ،جدا نہیں، اس صفت کے ساتھ اُس کے موصوف ہونے کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا، وہ اپنی مشیت اور اختیار سے اس کے ساتھ کلام فرماتا ہے اور اس کا کلام سب سے بہترین کلام ہے، اس کاکلام مخلوق کے کلام سے مشابہ نہیں کیونکہ خالق کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، وہ اپنی مخلوق: فرشتوں، اپنے رسولوں اور بندوں میں سے جس سے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے، چاہے واسطے سے یا بغیر واسطے کے۔
وہ اپنے کلام کو حقیقی طور پر سناتا ہے، اپنے فرشتوں اور رسولوں میں سے جسے چاہے اور قیامت کے دن اپنی آواز سے بندوں کو سنائے گا جیسے کہ اُس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور اپنی آواز کے ساتھ پکارا جب وہ درخت کے پاس آئے تو اس آواز کو موسیٰ علیہ السلام نے سنا۔
جس طرح اللہ کا کلام مخلوق کے مشابہ نہیں ہے اُسی طرح اُس کی آواز مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں اور اس کے کلام میں سے قرآن، تورات اور انجیل ہیں۔ قرآن اپنی سورتوں، آیتوں اور کلمات کے ساتھ اُس کا کلام ہے، اس نے حروف اور معانی کے ساتھ یہ کلام فرمایا اور(سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی پر نازل نہیں فرمایا ۔اُس نے اسے جبریل علیہ السلام کو سنایا، جبریل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو سنادیا، جبریل علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلام کی تبلیغ کرکے آگے ادا کردیا (یعنی لوگوں تک پہنچادینے کا واسطہ بنے) یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی تشریح، توضیح اور تفسیر بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بیان کردی جو احادیث کی صورت میں محفوظ ہے۔(والحمدللہ)
یہی قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور یہی مصاحف(لکھے ہوئے قرآنوں) میں ہے جسے تلاوت کرنے والے اپنی زبانوں سے تلاوت کرتے ہیں، قاری اپنی آوازوں سے اس کی قراءت کرتے ہیں اور سامعین اپنے کانوں سے اسے سنتے ہیں ،لکھنے والے اسے لکھتے ہیں اور شائع کرنے والے اپنے آلات کے ساتھ اسے شائع کرتے ہیں، یہی قرآن حفاظ کرام کے سینوں میں اپنے حروف اور معانی کے ساتھ محفوظ ہے،اللہ نے یہ کلام حقیقتاً فرمایا