کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 414
من صلاۃ خاتم النبیین صلی اللّٰه علیہ وسلم ( نماز کی صحیح اور مستند چالیس حدیثیں ص58 حدیث28) میں صراحت کی ہے۔
السنن الکبری للبیہقی (39، 38،3) اور مستدرک الحاکم (3؍172) کی جس روایت سے رکوع کے بعد والا قنوت ثابت ہوتا ہے: " ذَا رَفَعْتُ رَأْسِي وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا السُّجُودُ " اس کی سند الفضل بن محمد مسیب الشعرانی کی وجہ سے ضعیف ہے ۔حاکم نے اسے ثقہ جبکہ الشعرانی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حاکم نے اسے ثقہ جبکہ الحسین بن محمد القتبانی نے کذاب کہا ہے ۔ ابن حزم کہتے ہیں :" صدوق الا انه كان غاليا في التشيع "( لسان الميزان ج ٤ص 448ت 1368)
ابو حاتم نے کہا: تكلموا فيه : الجرح والتعدیل 7؍92ت 11937)
لہذا اس پر جرح ہی راجح ہے ۔
ابن مندہ نے یہی روایت الفضل بن محمد بن مسیب سے "ان اقول اذا فرغت من قراءتي في الوتر " کے الفاظ سے ساتھ بیان کی ہے ۔(التوحید لابن مندہ ج 2ص 191، وسندہ صحیح الی الفضل بن محمد بن المسیب )
اس سے رکوع سے پہلے قنوت ثابت ہوتاہے لہذا الفضل مذکور کی روایت میں تعارض ثابت ہوگیا ۔اس کا دوسرا راوی ابوبکر عبدالرحمن بن عبدالملک بن شیبہ بھی متکلم فیہ ہے ۔ ( دیکھئے تہذیب الکمال ج 11ص 284)
صحیح بخاری میں اس کی صرف دو روایتیں ہیں جو کہ متابعات میں ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے حجت نہیں پکڑی ۔ (دیکھیے ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص 418)
مختصر یہ کہ بعد از رکوع والی روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ جبکہ قنوت نازلہ میں بعد از رکوع ہی قنوت ثابت ہے۔ باقی قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کی کسی صحیح حدیث میں وضاحت مذکور نہیں ہے ،لہذا بہتر یہی ہے کہ ہاتھ نہ اٹھائے جائیں تاہم اگر کوئی دوسرے عام دلائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو یہ بھی جائز ہے ۔واللہ اعلم ( شہادت ، جنوری 2000ء)
سوال: وتر نماز میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے یا رکوع کے بعد؟