کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 413
روایت کیا ہے کہ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ عُمَرَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ كَبَّرَ، ثُمَّ قَنَتَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَرَكَعَ" ’’ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں صبح کی نماز پڑھی ۔ جب آپ دوسری رکعت میں قراءت سے فارغ ہوئے تو اللہ اکبر کہی تو دعائے قنوت پڑھی پھر تکبیر پڑھی اور رکوع کیا۔‘‘ اس کی سند صحیح ہے ۔ مخارق بن خلیفہ الاحمسی بالاتفاق ثقہ ہیں ۔ معلوم ہوا کہ قنوت نازلہ میں تکبیر کہنا سنت خلفائے راشدین ہے ۔ دوسرے صحابہ مثلا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اس کی تائید مروی ہے ۔ جب تکبیر ثابت ہوگئی تو رفع یدین بھی ثابت ہوگیا ۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ قنوت نازلہ میں ( دعا کی طرح)ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مسند احمد ج 3ص 137 وسندہ صحیح)اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہم سے ثابت ہے ۔ لہذا راجح یہی ہے کہ تکبیر کہہ کر رفع یدین کیا جائے پھر دعا کی طرح ہاتھ اٹھا لیے جائیں ۔واللہ اعلم ( شہادت، جون ۱۹۹۹ء) قنوت وتر رکوع سے پہلے یا بعد میں ؟ سوال : کیا قنوت وتر میں رکوع سے پہلے ہاتھ اٹھا ئے جائیں گے اور اس کی کیا دلیل ہے ؟ (ایک سائل) الجواب : سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ويقنت قبل الركوع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔ (سنن نسائی ج 3ص 235 حدیث:1700، سنن ابن ماجہ :1182) یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ سفیان الثوری کی متابعت فطر بن خلیفہ نے کر رکھی ہے۔ دیکھئے سنن الدار قطنی (ج 2ص 31ح 16449 اسے الضیاء المقدسی نے دارالمختارۃ میں روایت کیا ہے لہذا راجح یہی ہے کہ قنوت وتر رکوع سے پہلے کی جائے جیساکہ راقم الحروف نے اپنی کتاب ہدیۃ المسلمین فی جمع الاربعین