کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 41
اور بذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچادیا۔ دیکھئے الحجہ فی بیان المحجہ وشرح عقیدہ اہل السنہ(ج1ص 368) کوثری نے"قائم باللہ" (یعنی الکلام النفسی) کی مبتدعانہ اصطلاح اختیار کرکے ’’کلام نفسی‘‘کی بدعتی اصطلاح کوہی رواج دیا اور امام احمد وابن حزم کا ذکر صرف دھوکا دینے اور رعب جمانے کے لیے کیا ہے، کیونکہ اللہ کے علم میں سے ہونے کامطلب صرف یہ ہے کہ قرآن اللہ کاکلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔امام احمد نےلفظیہ کو جہمیہ سے زیادہ شریر قراردیا تھا جیسا کہ سابقہ صفحات میں گزر چکاہے اور آپ اُس شخص کو کافر کہتے تھے جوقرآن کو مخلوق کہتا تھا۔علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا: "والقرآن كلام اللّٰه وعلمه غير مخلوق" ’’اور قرآن اللہ کا کلام اور علم ہے مخلوق نہیں ہے۔‘‘ (المحلیٰ ج1ص 32 مسئلہ:58) بلکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے مصاحف میں لکھے ہوئے، قاری سےسنے جانے والے، سینوں میں محفوظ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر جبریل کے ذریعے سےنازل کردہ قرآن کو اللہ کا کلام حقیقتاً قرار دیا اور مجاز کی نفی کی، جو شخص قرآن کو مخلوق سمجھتا ہے اُس کے بارے میں ابن حزم نے کہا:"فقد کفر" یقیناً اُس نے کفر کیا۔(المحلیٰ 1؍32 مسئلہ:59) معلوم ہوا کہ کوثری نے امام احمد رحمہ اللہ اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ دونوں پر جھوٹ بولا اور فلسفیانہ سفسطے کو عام سادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے لفظیہ فرقے(جوکوثری کی طرح کلام لفظی اور کلام نفسی کی بدعات نکالتے ہیں)کے بارے میں فرمایا:یہ لوگ صرف جہم(ایک بہت بڑے گمراہ اور بے ایمان) کے کلام پر ہی گھوم رہے ہیں۔الخ(مسائل ابی داود ص 271 ،وسندہ صحیح) اس مسئلے(قرآن کے کلام اللہ ہونے اور مخلوق نہ ہونے) پرتفصیلی تحقیق کے لیے شیخ عبداللہ یوسف الجدیع العراقی حفظہ اللہ کی عظیم کتاب:"العقيدة السلفية فى كلام رب البرية وكشف أباطيل المبتدعة الردية" (کل صفحات 460) کا مطالعہ کریں۔شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع العراقی نے فرمایا: