کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 408
وَتُرِكَتْ صَلَاةُ الْفَجْرِ لِطُولِ الْقِرَاءَةِ، وَصَلَاةُ الْمَغْرِبِ لِأَنَّهَا وِتْرُ النَّهَارِ "
’’ سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیاگیا اور صبح کی نماز کو طول قراءت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا گیا۔‘‘ ( صحیح ابن حبان 4؍180ح 2727 دوسرا نسخہ :2738 وصحیح ابن خزیمہ 2؍71 ح 944 وسندہ حسن )
تنبیہ : اس روایت کے راوی محبوب بن الحسن بن ہلال بن ابی زینب حسن الحدیث ہیں ۔انھیں جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ دن رات میں پانچ نمازیں ( ہر مکلف پر) فرض ہیں ۔
1۔ نماز فجر 2) نماز ظہر 3) نماز عصر
4) نماز مغرب 5) نماز عشاء ۔
نماز فجر اور نماز عشاء کا خاص طور پر ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ (سورہ النور: 58)
ظہر کا اشارہ سورہ ٔ بنی اسرائیل میں موجود ہے ۔ (آیت :78)
نیز دیکھئے کتاب الأم للامام الشافعی (1؍68)
اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ۔
حافظ ابن حزم ( متوفی 456ھ) فرماتے ہیں :’’ اس پر اتفاق (اجماع) ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں ۔اس پر اتفاق(اجماع) ہے کہ خوف وامن ۔ سفر وحضر میں صبح کی نماز دو رکعتیں ( فرض) ہے اور خوف وامن ، سفر وحضر میں مغرب کی نماز تین رکعتیں ( فرض ) ہے ۔۔اس پر اتفاق (اجماع) ہے کہ حالت امن میں مقیم پر ظہر ۔ عصر اور عشاء کی نمازیں چار چار رکعات ( فرض ) ہیں ۔‘‘ ( مراتب الاجماع ص 24۔25)
احادیث صحیحہ مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ گھر میں (حالت امن میں ) صبح کی نماز دو رکعتیں ، ظہر کی چار، عصر کی چار، مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعتیں فرض ہے۔ حالت سفر میں مغرب کے علاوہ باقی نمازیں دو دو رکعتیں فرض ہیں ۔ کفار کے ساتھ جہاد کرتے وقت