کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 401
سے صحیح العقیدہ لوگوں کو کیوں کر کتاب وسنت سے ہٹایا جاسکتا ہے ؟ اس موضوع پر تفصیلی معلومات کرنے کے لیے میری کتاب ’’علمی مقالات‘‘ ( جلد اول) کا مطالعہ کریں جو یقینا تشفی کا باعث بنے گا۔ (ان شاء اللہ ) ( شہادت ، جون 2001) نماز میں مخصوص آیات کا جواب دینا سوال: نماز میں قرآن کی چند آیات کا جواب دینا جیساکہ مذکور ہے کیا یہ درست ہے اور ان کا جواب تمام مقتدیوں کو دینا چاہیے یا صرف امام کو اور اگر مقتدی جواب دے تو وہ جہری طور پر دے یا دل میں ؟ ( طارق علی بروہی، کراچی) الجواب : صحیح مسلم ( صلاۃ المسافرین باب استحباب تطویل القراء ۃ فی صلوۃ اللیل ح 772) میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز میں تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح فرماتے جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اور جب تعوذ پناہ والی آیت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے ۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ( سیدنا ) ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھی ۔ جب آپ نے ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) کی تلاوت کی تو کہا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ( المصنف ج 2ص 508 ح 8640 وسندہ صحیح ) تقریبا یہی عمل ، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ و غیرہما سے ثابت ہے ۔(المصنف 2؍509 ح8643 وسندہ صحیح 8647،وسندہ صحیح) لہذا امام کے لئے جائز ہے کہ جمعہ وغیرہ میں آیت کی تلاوت کے بعد کبھی کبھار اس کا جواب بھی عربی زبان میں ہی جہرا یا سرا دے دے تاہم مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ مقتدی حضرات بھی آیات کا جواب دیں گے ! لہذا نمازیوں کو چاہیے کہ وہ حالت جہر میں امام کے پیچھے صرف سورۂ فاتحہ پڑھیں ۔ واللہ اعلم ( شہادت فروری 2000) سوال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربی الاعلی کہنے کی دلیل ارشاد فرمائیں ؟ (ایک رسائل)