کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 391
کرتے ہوئے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور الترغیب والترہیب للمنذری کے تین معلقین کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے: "ولا شاهد لفقرة الخروج من الملة وغيرها وقد وقع في مثله بعض من نظن فيه العلم من الكتاب المعاصرين " اور ملت(اسلامیہ )سے خروج وغیرہ کے فقرے کا کوئی شاہد نہیں ہے۔معاصر لکھاریوں میں سے بعض ( یعنی الشیخ عبدالرحمن بن عبدالجبار الفرایوائی ۔الہندی) جن کے علم کے بارے میں ہم ( حسن) ظن رکھتے ہیں اسی خطا میں گرگئے ہیں ( یعنی اس روایت کو شواہد کی وجہ سے صحیح قراردیا ہے حالانکہ یہ روایت ضعیف ہے۔) (ضعیف الترغیب والترہیب 1؍161، تحت ح300) تنبیہ : حافظ المنذری نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے: "باسنادین لا باس بھما "(الترغیب والترہیب:۱/۳۷۹ح۷۹۷) حالانکہ اس کی صرف ایک ہی سند ہے، ممکن ہے کہ ان کی مراد یہ ہوکہ "باسنادین عن سعید بن ابی مریم "واللہ اعلم۔اب اس حدیث کے شواہد کاجائزہ درج ذیل ہے: (۱)۔۔ "عن ابي الدرداء قال: اوصاني خليلي صلي اللّٰه عليه وسلم ان لا تشرك باللّٰه شيئا وان قطعت وحرقت ولاتترك صلوة مكتوبة متعمداً ‘ فمن تركها فقد برئت منه الذمة ولا تشرب الخمر فانها مفتاح كل شرّ" سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مجھے میرے خلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی : یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراناگرچہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اور تمہیں جلا دیاجائے تو بھی فرض نماز ترک نہ کرنا۔ جس نے اسے (نمازکو) چھوڑدیا تو وہ ذمے سے بری ہے۔شراب نہ پینا کیونکہ ہر برائی کی جڑ یہی ( شراب) ہے۔ (سنن ابن ماجہ :4034؍3371مختصرا وسندہ حسن وحسنہ البوصیری وقال الالبانی فی الاول : " حسن " فی الثانی "صحیح " یعنی بشواہدہ) (۲)۔۔۔"عن اميمة مولاة رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم :قال لاتشرك باللّٰه شيئا وان قطعت وحرقت بالنار ّ ولا تعصين والديك وان امراك ان