کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 39
صلى اللّٰه عليه وسلم وألسنة سائر التالين، وقلوبهم، وألواحهم، مخلوق حادث محدث ضرورة، ومن ينكر ذلك يكون مسفسطا ساقطا من مرتبة الخطاب وانما القديم هو المعني القائم باللّٰه سبحانه يعني الكلام النفسي في علم اللّٰه جل شأنه في نظر احمد بن حنبل وابن حزم وقد صح عن احمد قوله في المناظرة:القرآن من علم اللّٰه وعلم اللّٰه غير مخلوق"
’’اور واقعی یہ ہے کہ لوح محفوظ، زبان جبریل علیہ السلام، زبان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام تلاوت قرآن کرنے والوں کی زبانوں، دلوں اورتختیوں پر قرآن مخلوق حادث ہے جو کہ ضروریات(بدیہی حقیقتوں) کامسئلہ ہے۔جو شخص اس کا انکار کرتا ہے تو وہ بدیہات کا منکر اور وہمیات کا قائل ہے ،وہ اُس مرتبے سے ساقط ہے کہ اُس سے گفتگو کی جائے۔قدیم تو وہ معنی ہے جو اللہ سبحانہ کے ساتھ قائم ہے،احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ابن حزم کی نظر میں وہ اللہ جل شانہ کے علم میں کلام نفسی کے معنی میں ہے۔احمد سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے مناظرے میں کہا:قرآن اللہ کے علم میں سے ہے اور اللہ کا علم مخلوق نہیں ہے۔(مقالات الکوثری:بدعۃ الصوتیہ حول القرآن ص27)
کوثری کے اس تلبیسانہ کلام سے معلوم ہوا کہ کوثری جرکسی کے نزدیک وہ قرآن مخلوق ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت کرتے تھے، جبریل امین جو قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسناتے تھے وہ کوثری کے نزدیک مخلوق ہے بلکہ لوح محفوظ میں جو قرآن لکھا ہوا ہے وہ بھی کوثری کے نزدیک مخلوق ہے۔!
علمائے اہل سنت کے اجماعی اور متفقہ فتاویٰ میں سے بعض کے حوالے آپ کے سامنے پیش کردیے گئے ہیں کہ قرآن کو مخلوق کہنے والاکافر ہے۔
حنفیوں کی کتاب شرح عقیدہ طحاویہ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے، جسے اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور وحی نازل فرمایا۔ یہ حقیقت میں اللہ کاکلام ہے مخلوق نہیں ہے، جو شخص اسے سُن کر سمجھے کہ یہ انسان کا کلام ہے تو اُس نے کفر کیا، اللہ نے ایسے شخص کے ساتھ جہنم کے عذاب کا وعدہ کررکھا ہے۔