کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 386
" كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اذا قعد في الصلوة ____ واشار باصبعه "
(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب صفۃ الجلوس فی الصلوۃ وکیفیتہ موضع الیدین علی الفخذین حدیث:579)
جب دعا کریں یعنی درود کے بعد تو شہادت کی انگلی کو حرکت دیں ۔
(سنن النسائی ۔الافتتاح باب موضع الیمین من الشمال فی الصلوۃ ح 890،وسندہ صحیح ، فرایتہ یحرکھا یدعو بھا)
فائدہ : عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی نے لکھا ہے :
’’ تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا ہے کہ اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کس وقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں ۔ حضرت قدس سرہ (یعنی رشید احمد گنگوہی دیوبندی ) کے حضور میں پیش کیاگیا فوراً ارشاد فرمایا :
’’ ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہےتھے ‘‘اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اس کا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے اور یہ بھی فرمایا کہ لوگ اس مسئلہ کو باب التشہد میں ڈھونڈتے ہیں اور وہاں ملتا نہیں،اس سے سمجھتے ہیں کہ حدیث میں نہیں ہے امام ربانی کا سرعت انتقال ذہنی اور ملکہ استنباط وفقاہت ان دونوں واقعہ سے اظہر من الشمس ہے۔‘‘ ( تذکرۃ الرشید ج1ص 113، تفقہ اور افتاء )
راقم الحروف کے خیال میں گنگوہی صاحب کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں لکھا ہوا ہے:" ان رجلا كان يدعوا باصبعيه فقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم :احد احد"
( سنن ترمذي كتاب الدعوات باب 104 قبل احادیث شتی من ابواب الدعوات حدیث :3557)
لیکن یہ سند محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔( شہادت، اگست 2000ء)
سوال: قعدہ میں التحیات کے وقت سبابہ کی انگلی سے جو اشارہ کیا جاتا ہے کیا انگلی کو اٹھائے رکھنا چاہیے یا ہلاتے رہنا چاہیے یا ویسے ہی رکھنا چاہیے ، کون ساعمل زیادہ درست ہے؟ (طارق علی بروہی ،کراچی)
الجواب: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ تشہد (التحیات ) کے لیے بیٹھتے وقت ہی