کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 38
كما يليق بجلاله وعظمته؛ فإنه قادر، والقادر لا يحتاج إلى جوارح، ولا إلى لهوات؛ وكذلك له صوت كما يليق به، يسمع، ولا يفتقر ذلك الصوت المقدس، إلى الحلق والحنجرة؛ كلام اللّٰه تعالي كما يليق به وصوته كما يليق به؛ ولا ننفي الحرف والصوت عن كلامه، لافتقارهما منا إلى الجوارح، واللهوات، فإنهما في جناب الحق تعالي: لا يفتقران إلى ذلك، وهذا ينشرح الصدر له، ويستريح الإنسان به، من التعسف والتكلف....." ’’اور تحقیق یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حروف کے ساتھ کلام فرمایا جیسا کہ اس کے جلال اور عظمت کے لائق ہے ،کیونکہ وہ قادر ہے اور قادر مطلق کو اعضاء اور حلق کے کوے کی حاجت نہیں ہوتی اور اسی طرح اُس(کے کلام) کی سُنی جانے والی آواز ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے اور یہ مقدس آواز حلق اور نرخرے کی محتاج نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے اور اس(کلام) کی آواز ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے۔ہم اللہ سبحانہ کے کلام سے حرف وصوت کی نفی(انکار) اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ہم اعضاء اور حلق کے کوؤں کے محتاج ہیں (بلکہ ان صفات کا اقرار کرتے ہیں) کیونکہ حق تعالیٰ کی جناب(ذات) ان چیزوں کی محتاج نہیں ہے اور یہ وہ بات ہے جس پر شرح صدر ہوتا ہے اور تعسف وتکلف سے (دوررہ کر) انسان کو آرام پہنچتا ہے۔۔۔(مسألۃ الحروف والصوت ص11،الرسائل المنیریہ 1؍184) ابراہیم نخعی نے ابو العالیہ الریاحی کی تعلیم القرآن میں احتیاط کےبارے میں فرمایا: "أَظُنُّ صَاحِبَكُمْ قَدْ سَمِعَ، أَنَّهُ مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنْهُ، فَقَدْ كَفَرَ بِهِ كُلِّهِ" میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے ساتھی نے یہ سنا ہے کہ جس نے قرآن کے ایک حرف کا انکار کیاتو اس نے سارے قرآن کا انکار کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج10 ص513 ح30100 وسندہ صحیح) علمائے اہل سنت کی ان واضح تصریحات کے مقابلے میں زاہد بن حسن بن علی (رضا) بن خضوع بن بائی بن قانبت بن قنصوا لجر کسی الکوثری نے بغیر کسی شرم وحیا کے لکھا: "والواقع أن القرآن في اللوح، وفي لسان جبريل عليه الصلاة والسلام، وفي لسان النبي