کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 369
کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: اول: سفیان ثوری مدلس اور روایت معنعن ہے ۔ دوم: شیخ من الانصار مجہول ہے اور یہ کہنا کہ "والصحيح انه صحابي" غلط ہے ۔ سوم : دارقطنی ( 1؍346ح1298)بخاری (جز ء القراءۃ 208) ابن خزیمہ (1595) بیہقی (2؍89) عقیلی ( 4؍398) اور ابن عدی (7؍2684) وغیرہم نے " يحيٰ بن حميد عن قرة عن ابن شهاب عن ابي سلمة عن ابي هريرة " کی سندسے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من ادرك ركعة من الصلوة فقد ادركها قبل ايقيم الامام صلبه )) جس نے امام کے پیٹھ اٹھانے سے پہلے نماز کی رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔ اس روایت کی سند قرہ بن عبدالرحمن بن حیویل کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ قرہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے،اس روایت کے بارے میں شیخ امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں : " وسندہ ضعیف " اور اس کی سند ضعیف ہے ۔( فتاوی الدین الخالص ج 4ص 218) اس روایت کی ایک دوسری سند ہے جس میں مہتم راوی ہے ۔(ایضا 4؍218) لہذا یہ سند سخت ضعیف اور مردود ہے ۔ چہارم: بیہقی (2؍90) نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ " من لم يدرك الامام راكعا لم يدرك تلك الركعة " جس نے امام کو رکوع میں نہ پایا اس نے رکعت نہیں پائی ۔ اس روایت کی سند میں علی بن عاصم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ومجروح ہے ،لہذا اس روایت کو " واسناده صحيح " کہنا غلط ہے ۔اس روایت کی دوسری سند میں ابواسحاق السبیعی مدلس ہیں لہذا وہ سند بھی ضعیف ہے ۔ جب تک سند صحیح وحسن نہ ہوتو "ورجاله موثقون " کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پنجم: ابن ابی شیبہ (1؍99) طحاوی (1؍223) اور بیہقی (2؍90) نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ