کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 366
رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے ۔ دیکھئے امام بیہقی کی کتاب السنن الکبری (ج2ص 73) وقال: "رواته ثقات "اس کے راوی ثقہ (قابل اعتماد) ہیں۔ تنبیہ : اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس پر بعض الناس کی جرح مردود ہے ۔ دیکھئے میری کتاب نورالعینین فی مسئلۃ رفع الیدین (ص 119تا121) دلیل سوم : سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین مروی ہے ۔ دیکھئے نصب الرایہ (ج 1ص 412) ومسند الفاروق لابن کثیر (ج 1ص 165 ۔166 ) وشرح سنن الترمذی لابن سیدالناس (قلمی ج 2ص 217) وسندہ حسن، دیکھئے نو رالعینین (ص 195تا 204) اس روایت کی سند حسن ہے اور یہ روایت شواہد کے ساتھ صحیح لغیرہ ہے۔ دلیل چہارم: سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر عشرۂ مبشرہ میں سے کسی ایک صحابی سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کا ترک ،ممانعت یا منسوخیت قطعا ثابت نہیں ہے ۔ تنبیہ: طاہر القادری صاحب نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین کی تین روایات لکھیں ہیں ۔(المنہاج السوی طبع چہارم ص228۔229ح 258،260۔ 261) یہ تینوں روایات اصول حدیث کی رو سے ضعیف ہیں ۔ دیکھئے نورالعینین (ص 231۔234۔236) ان میں سے پہلی روایت کے راوی محمد بن جابر پر خود امام دار قظنی وامام بیہقی نے جرح کر رکھی ہے۔ہل سنت کے جلیل القدر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :"هذا حديث منكر " یہ حدیث منکر ہے ۔ ( المسائل : روایۃ عبداللہ بن احمد ج1ص 242 ت327) ابھی تک ماہنامہ الحدیث حضرواور نورالعینین کی محولہ تنقید وجرح کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں آیا۔والحمد للہ خلاصۃ التحقیق : محمد طاہر القادری صاحب کی مسئولہ روایت مذکورہ بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے بے اصل ،باطل اور مردود ہے۔وماعلینا الا البلاغ ۔ (9؍ فروری 2007ء) (الحدیث:35)