کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 365
الخ، اس کی تخریج سمرقندی نے تحفۃ الفقہاء میں کی ہے کہ الخ ، کہہ کر سادہ لوح عوام کو دھوکا نہیں دینا چاہیے ۔ لوگ تو یہ سمجھیں گے کہ سمرقندی کوئی بہت بڑا محدث ہوگا جس نے یہ روایت اپنی سند کے ساتھ اپنی کتاب تحفۃ الفقہاء میں نقل کر رکھی ہے۔حالانکہ سمرقندی کا محدث ہونا ہی ثابت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تقلیدی فقیہ تھا جس نے یہ روایت بغیر کسی سند اور حوالے کے "روی " کے گول مول لفظ سے لکھ رکھی ہے۔اب عوام میں کس کے پاس وقت ہے کہ اصل کتاب کھول کر تحقیق کرتا پھرے ۔! عام طور پر غیرثابت اور ضعیف روایت کے لیے صیغۂ تمریض " روی" وغیرہ کے الفاظ بیان کئے جاتے ہیں ، دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی (ص 136 نوع 22) لہذا جس روایت کی کوئی سند سرے سے ہی موجود ہی نہ ہو اور پھر بعض الناس اسے" روی" وغیرہ الفاظ سے بیان کریں تو ایسی روایت موضوع،بے اصل اور مردود ہی ہوتی ہے۔ سمرقندی وکاسانی کی پیش کردہ یہ بے سند وبے حوالہ روایت متن اور اصول روایت واصول دروایت کے لحاظ سے بھی مردود ہے۔ دلیل اول: امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ (متوفی 235ھ) فرماتے ہیں : " حدثناب هشيم قال اخبرنا ابوجمرة قال :رايت ابن عباس يرفع يديه اذا افتتح الصلوة واذا ركع واذا رفع راسه من الركوع" ہمیں ہشیم نے حدیث بیان کی ،کہا: ہمیں ابو جمرہ نے خبردی ،کہا: میں نے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا آپ شروع نماز اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 235ح12431) اس روایت کی سند حسن لذاتہ یا صحیح ہے ۔معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بذات خود رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے لہذا یہ ہوہی نہیں سکتا کہ انھوں نے رفع یدین کے خلاف کوئی روایت بیان کر رکھی ہو۔ من ادعي خلافه فعليه ان ياتي بالدليل ۔ دليل دوم: عشرہ ٔمبشرہ میں سے اول صحابی سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور