کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 361
9ھ میں جو وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئے تھے ،حافظ ابن کثیر الدمشقی نے ان میں وائل رضی اللہ عنہ کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ،ج ۵ ص ۷۱)
اس کے بعد (اگلے سال 10ھ ) آپ دوبارہ آئے تھے ،اس سال بھی آپ نے رفع یدین کا ہی مشاہدہ فرمایا تھا۔(سنن ابی داؤد:727،صحیح ابن حبان ،الاحسان 3؍129 ح 1857)
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفع یدین نہیں چھوڑا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے رہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اخبار الفقہاء والی روایت موضوع ہے ۔
دلیل نمبر8: سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز،رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ 1؍344 ح 694 ۔695 وسندہ حسن)
یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری چار سالوں میں آپ کے ساتھ رہے ہیں ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔( جزء رفع الیدین للبخاری بتحقیقی:22)
اس روایت مذکورہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور امام ابو حنیفہ کے استاد عطا بن ابی رباح بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔(جزء رفع الیدین:62 وسندہ حسن )
معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں رکوع والا رفع یدین متروک یا منسوخ نہیں ہوا تھا، لہذا ’’اخبار الفقہاء ‘‘والی روایت جھوٹی روایت ہے۔
دلیل نمبر 9: مشہور تابعی نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شروع نماز، رکوع سے پہلے او ر رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے وقت (چاروں مقامات پر) رفع یدین کرتے تھے۔(صحیح بخاری 2؍102 ح739)
یہ ہوہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق رفع یدین منسوخ