کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 360
لکھا ہوا ہے :" وكان يحدث بحدیث رواه مسندا في رفع اليدين وهو من غرائب الحديث واراه من شواذها " اور وہ رفع یدین کے بارے میں ایک حدیث سند سے بیان کرتا تھا ۔ یہ غریب حدیثوں میں سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ شاذ روایتوں میں سے ہے ۔(اخبار الفقہاء والمحدثین ص214) یہ عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ شاذ روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ غلام مصطفی نوری صاحب نے’’کمال دیانت‘‘ سے کام لیتے ہوئے "من شواذها" کی جرح کو چھپالیا ہے۔ ان دلائل کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔ اب متن کا جائزہ پیش خدمت ہے: دلیل نمبر 7: اس روایت کے متن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد رکوع والا رفع یدین چھوڑدیا۔ جبکہ صحیح ومستند احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں رفع یدین کرتے تھے ۔ ابو قلابہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتے تو تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔( صحیح مسلم 1؍167ح391 وصحیح بخاری 1؍102 ح737) مالک بن حویرث اللیثی رضی اللہ عنہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ منورہ میں) غزوہ تبوک کی تیاری کررہے تھے۔ ( دیکھئے فتح الباری ج2ص 173ح104) وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ شروع نماز،رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔(صحیح مسلم،ج۱ ص۱۷۳ح ۴۰۱) عینی حنفی لکھتے ہیں : وائل بن حجر اسلم في المدينة في سنة تسع من الهجرة " اور وائل بن حجر مدینہ میں نو (9) ہجری کو مسلمان ہوئے تھے ۔( عمدۃ القاری ج 5 ص 274)