کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 358
کوئی سند مذکور نہیں ہے اور آخر میں لکھا ہوا ہے: " تم الكتاب والحمدلله حق حمده وصلي اللّٰه علي محمدوآله وكان ذلك في شعبان من عام ٤٨٣ھ "كتاب مکمل ہوگئی اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جیسا کہ اس کی تعریف کاحق ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود ہو۔ اور یہ (تکمیل )شعبان 483ھ میں ہوئی ہے۔(ص293) اخبار الفقہاء کے مذکور مصنف محمد بن حارث القیر وانی (متوفی 361ھ) کی وفات کے ایک سو بائیس (122) سال بعد اس کتاب اخبار الفقہاء کی تکمیل کرنے اور لکھنے والا کون ہے؟ یہ معلوم نہیں ! لہذا اس کتاب کا محمد بن حارث القیروانی کی کتاب ہونا ثابت نہیں ہے ۔ دلیل نمبر2: اس کے راوی عثمان بن محمد کا تعین ثابت نہیں ہے۔بغیر کسی دلیل کے اس سے عثمان بن محمد بن مدرک مراد لینا غلط ہے۔اس ابن مدرک سے محمد بن حارث القیروانی کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں :" عثمان بن محمد بن خشيش القيرواني عن بن غانم قاضي افريقیه اظنه ‘كان كذابا"عثمان بن محمد بن خشیش القیروانی ،ابن غانم قاضی افریقیہ سے روایت کرتا ہے،میراخیال ہے۔یہ کذاب تھا۔( المغنی فی الضعفاء ج2ص ت4059) عثمان بن محمد: کذاب قیروانی ہے اور محمد بن حارث بھی قیروانی ہے لہذا ظاہر یہی ہوتا ہے کہ عثمان بن محمد سے یہاں بن محمد سے یہاں مراد یہی کذاب ہے۔ یادرہے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک کاثقہ ہونا معلوم نہیں ہے۔محمد بن الحارث القیروانی کی طرف منسوب کتاب میں لکھا ہوا ہے : "قال خالد بن سعيد :عثمان بن محمد ممن عني بطلب العلم ودرس المسائل وعقد الوثائق مع فضله وكان مفتي اهل موضوعةتوفي ۳۲۰-" خالد بن سعد نے کہا: عثمان بن محمد طلب علم پر توجہ دینے والوں میں سے ہے ،اس نے مسائل پڑھائے اور فضیلت کے ساتھ دستاویزات لکھیں۔وہ اپنے موضع (علاقے) کا مفتی تھا،320 ھ کو فوت ہوا۔(اخبار الفقہاء والمحدثین ،ص216)