کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 352
ہے) کے بارے میں محمود حسن دیوبند ی صاحب فرماتے ہیں:
’’ باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے۔‘‘ ( تقاریر شیخ الہند ص 65 مطبوعہ ادارۃ تالیفات اشرفیہ، ریلوے روڈ ملتان )
اس حدیث کے بارے میں محمد تقی عثمانی دیوبند ی صاحب فرماتے ہیں :
’’لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے ۔کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عندالسلام ہی سے متعلق ہے۔‘‘ (درس ترمذی ج 2ص 36)
2۔ وہ روایتیں جن سے ترک رفع یدین کا اشارہ ملتا ہے ، مثلا حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ لیکن انصاف یہ ہے کہ یہ ساری روایتیں اصول حدیث کی رو سے ضعیف ومردود ہیں ۔
راقم الحروف نے نورالعینین (ص 92تاص 106، طبع جدیدص 125۔158) میں متعدد دلائل سے سفیان ثوری کی سند سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت کا ضعیف و مردود ہونا ثابت کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ یہ حدیث علت قادحہ کے ساتھ معلول ہے اور سندا اور متنا دونوں طرح سے ضعیف ہے۔‘‘( ص 96،واللفظ لہ ،طبع جدید ص130)
اور ایک مجہول شخص ’’ابو بلال جھنگوی ‘‘ نے تحفہ اہلحدیث (نمبر 2) نامی کتابچہ لکھاہے جسے ادارہ ’’العزیز ‘‘ نزد جامع مسجد صدیقیہ ، گلہ برف خانہ ، سیالکوٹ روڈ کھوکھر کی گوجرانوالہ ،سے شائع کیا گیا ہے۔اس کتابچہ کے صفحہ 159 پر اس مجہول مصنف نے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ زبیر علی زئی ۔۔۔۔۔ نے نورالعینین میں صحیح کہا۔‘‘!!!
حالانکہ راقم الحروف نے اس روایت کو نہ صحیح کہا اور نہ حسن ،بلکہ اس کے برعکس اس روایت کا ضعیف،معلول اور مردود ہوناثابت کیا ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ مجہول مصنف کذاب اور ساقط العدالت ہے۔ بعض لوگ اس قسم کی کتابیں ، رسالے اور مضامین وغیرہ پڑھ کر بغلیں بجانا شروع کردیتے ہیں کہ ہم نے اہل حدیث کو شکست دے دی ،حالانکہ ان لوگوں