کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 351
مزید تحقیق کے لیے ماہنامہ الحدیث :55 میں تحقیقی مضمون ’’تائید ربانی اور ابن فرقد شیبانی ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
حافظ ذہبی جیسے متاخرین نے اسے صرف موطأ امام مالک کی روایت میں قوی قراردیا ہے۔یہ قوی قراردینا محل نظر ہے تاہم روایت مذکورہ موطا امام مالک کی ہرگز نہیں ہے۔
2:اس کا دوسرا راوی محمد بن ابان بن صالح الجعفی بھی بالاتفاق ضعیف ہے ۔
( دیکھئے نو رالعینین ، ص 173 اور کتب اسماء الرجال ) (شہادت،جولائی۲۰۰۰ء)
مسئلہ رفع الیدین وعدم رفع یدین
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ رفع الیدین اور عدم رفع الیدین ( یعنی کندھوں تک ہاتھ نہ اٹھانا ) دونوں عمل احادیث سے ثابت ہیں ؟ نیز اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو نماز میں کبھی رفع الیدین کرتا ہے اور کبھی نہیں ؟ (طارق علی بروہی ۔ کراچی )
الجواب: نماز میں تکبیر اولی، رکوع سے پہلے اور اس کے بعدوالا رفع الیدین صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے، دیکھئے قطف الازہار المتناثرہ للسیوطی لقط اللآلی المتناثرہ من الحدیث المتواتر للکتانی اور میری کتاب ’’ نورالعینین فی (اثبات ) مسئلہ رفع الیدین ‘‘(ص 82،87 ونسخہ جدید ص 122،123)
رفع یدین کے متواتر ہونے کا اعتراف دیوبندیوں میں انور شاہ کشمیری صاحب نے بھی کیا ہے۔( دیکھئے نیل الفرقدین ص 22)
متواتر حدیث (یونانی علم کلام اور متعارض ومتناقص اصول فقہ والوں کے نزدیک بھی) قطعی اور یقینی ہوتی ہے ،اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا جیسا کہ اصول میں مقرر ہے ۔اس کے مقابلے میں مخالفین رفع یدین دو قسم کی روایات پیش کرتے ہیں :
1۔ وہ صحیح روایتیں جن میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کا ذکر ہی نہیں ہے،مثلاً صحیح مسلم میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث (جس میں سرکش گھوڑوں کی دموں کاذکر آیا