کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 350
کیا محدثین کرام میں کسی قابل اعتماد محدث نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے ؟ (ایک سائل) الجواب: میرے علم کے مطابق ایک محدث بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسے صحیح یا حسن کہا ہو۔ بلکہ امام بیہقی کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی اسے وہم ،لااصل لہ اور باطل کہا ہے ۔مثلا امام ابن معین رحمہ اللہ ( جو کہ عندالفریقین مستند اورقابل اعتماد محدث اور امام ہیں) نے فرمایا : یہ روایت ابوبکر بن عیاش کاوہم ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔( جزء رفع الیدین ص56) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ( جو کہ ائمہ اربعہ میں سے ہیں ) اس روایت کے بارے میں فرمایا: " ھو باطل" یعنی یہ روایت باطل ہے ۔( مسائل احمد روایۃ اسحاق بن ابراہیم بن ہافی النسیا بوری ج اص 50) فن حدیث اور علل کے ان ماہر محدثین کرام کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تصحیح وتحسین کا کیا اعتبار ہے جو بذات خود ایک فریق مخالف کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی زندگیاں کذب بیانیوں ،افتراء پر دازیوں ، تناقضات اور مغالطوں سے بھری پڑی ہیں۔(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 27 جون 1997) سوال: ایک روایت میں آیا ہے کہ "عن عبدالعزيز بن حكيم قال: رايت ابن عمر يرفع يديه حذو اذنيه في اول تكبيرة ولم يرفعها فيما سوي ذلك" (موطا امام محمد ص9) (محمد سعید چانڈیو) الجواب: اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے ۔ 1:اس کا بنیادی راوی محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی سخت مجروح ہے ۔قاضی ابویوسف نے اس راوی کے بارے میں کہا ہے: اس کذاب یعنی محمد بن الحسن سے کہو: یہ مجھ سے جو روایتیں بیان کرتا ہے کیا اس نے سنی ہیں؟ ( تاریخ بغداد 2؍180 وسند ہ حسن، ماہنامہ الحدیث :55ص29) امام یحیی بن معین نے کہا : "جهمي كذاب" وہ جہمی کذاب تھا۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی 4؍52وسند ہ صحیح، لسان المیزان 5؍122۔دوسرا نسخہ 6؍28،ماہنامہ الحدیث:55ص 13)