کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 347
معلوم ہوا کہ رفع یدین پر مسلسل عمل دور نبوی، دور صحابہ ، دور تابعین ، دور تبع تابعین اور بعد کے ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے ،لہذا اسے منسوخ یا متروک سمجھنا یا بغلوں میں بتوں والے جھوٹے قصے کے ساتھ اس کا مذاق اڑانا اصل میں حدیث اور سلف صالحین کے عمل کا مذاق اڑانا ہے ۔
اگر رفع یدین منسوخ یا متروک ہوتا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کبھی رفع یدین نہ کرتے کیونکہ انھوں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخری نمازیں پڑھی تھیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے مصلے پر امام مقرر کیا تھا۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب ’’ نور العینین فی (اثبات) مسئلہ رفع الیدین ‘‘
(ص119۔121) والحمدللہ ( 17 دسمبر 2008ء)
سوال: کیا نماز میں رفع یدین کرنے سے نیکیاں ملتی ہیں ؟ (حاجی نذیر خان دامان ، حضرد )
الجواب: جی ہاں ! سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"انه يكتب في كل اشارة يشيرها الرجل بيده في الصلوة بكل اصبع حسنة او درجة " نماز میں جو شخص ( مسنون) اشارہ کرتا ہے ،اسے ہر اشارے کے بدلے میں ہر انگلی پر ایک نیکی یا ایک درجہ ملتا ہے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی 17 ۔و297۔ ح 819 وسندہ حسن ۔ مجمع الزوائد 2۔103 وقال البیہقی : "واسنادہ حسن " معرفت السنن والآثار للبیہقی ج اص 225 قلمی )
اس روایت پر مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے نورالعینین (ص 181۔ 186)
یاد رہے کہ رفع یدین نہ کرنے پر کسی نیکی یا ثواب کا ملنا کسی بھی حدیث یا اثر سے ثابت نہیں ہے ۔