کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 342
ان کے شاگرد محمد بن یحییٰ (الذہلی ) ثقہ حافظ جلیل تھے۔(التقریب:6387) خلاصہ یہ کہ حدیث بلحاظ سند حسن ہے۔ لہٰذا شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اسے اسنادہ ضعیف کہنا قرین صواب نہیں ہے۔ واللہ اعلم امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "وروينا عن ابن عمر رضى اللّٰه عنه " أنه كان يرفع بها صوته ، إماما كان أو مأموما " ابن عمر رضی اللہ عنہ امام ہوتے یا مقتدی (دونوں صورتوں میں) آمین بلند آواز سے کہتے تھے۔(السنن الکبری2؍59) ان کا غالباً اس حدیث کی طرف اشارہ ہے:"وقال نافع: كان ابن عمر لا يدعه، ويحضهم، وسمعت منه في ذلك خبراً" نافع رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہ آمین (کہنا) نہیں چھوڑتے تھے اور انھیں (اپنے شاگردوں کو) اس کی ترغیب دیتے تھے اور میں نے اس سلسلہ میں ان سے ایک خبر سنی ہے۔(بخاری مع فتح الباری 2؍209) بعض روایات میں ہے کہ میں نے خیر سنی ہے۔ یہ روایت مصنف عبدالرازق (2641)میں موصولاً موجود ہے۔ تنبیہ: مصنف عبدالرزاق (2؍97)میں ابن جریج کے بعد"اخبرت نافع" چھپ گیا ہے۔جبکہ صحیح" اخبرنی نافع" ہے جیسا کہ فتح الباری 2؍209) میں ہے۔ فوائد بن معین میں صحیح سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے: " أن ابن عمر كان إذا ختم أمّ القرآن قال: آمين، لا يدع أن يؤمن إذا ختمها، ويحضهم على قولها قال: وسمعت منه في ذلك خبرا" ابن عمر رضی اللہ عنہ جب سورۃ فاتحہ ختم کرتے تو آمین (کہنا )نہ چھوڑتے، جب فاتحہ ختم کرتے تو آمین کہتے اور اسے کہنے کی ترغیب دیتے ،میں نے ان سے اس کے متعلق ایک روایت بھی سنی ہے۔ روایت ابن حجر نے تغلیق التعلیق (2؍319)میں اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن معین سے نقل کی ہے۔ میرے اس مضمون کا صرف وہی جواب قابل مسموع ہوگا جس میں اس مضمون کے