کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 341
منكرا ربما يهم وهو حسن الحديث " (الکامل لا بن عدی3؍1178،لسان المیزان 3؍69)
معلوم ہوا کہ يهم والی روایت کا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے(بشرطیکہ اس کے موثقین زیادہ ہوں اور روایت مذکورہ میں اس کا وہم ہونا ثابت نہ ہو۔)
دیوبندیوں کا اصول ہے کہ مختلف فیہ راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:" وكذا إذا كان الراوي مختلفاً فيه: وثقه بعضهم، وضعفه بعضهم فهو حسن الحديث" اور اس طرح اگر راوی میں اختلاف ہو، بعض نے اس کی توثیق کی ہواور بعض نے ضعیف قراردیا ہوتو وہ حسن الحدیث ہوتا ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص46مع تحقیق ابی غدۃ الحنفی )
اور اسامہ بھی مختلف فیہ راوی ہیں۔بعض نے جرح کی اور اکثر و جمہور علماء نے انھیں ثقہ قراردیا ،لہٰذا ان کی حدیث بذات خود حسن ہے ۔واللہ اعلم۔
ابن وہب کتب ستہ کے راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں۔ (التقریب :3694)
ابو سعید(یحییٰ بن سلیمان )الجعفی ،صحیح بخاری کے راوی ہیں ،ان سے ابوزرعہ وغیرہ نے روایت کی۔ ابو زرعہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔(لسان المیزان 2؍416)
ابن حبان نے ثقہ قراردیا ہے۔(کتاب الثقات 9؍263وقال :ربما اغرب)
دارقطنی نے کہا:"ثقہ "
مسلمہ بن قاسم نے کہا: "لا باس به وكان عند العقيلي ثقة وله احاديث مناكير"
(مسلمہ بذات خود ضعیف ہے)
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان سے روایت کی ہے، ابو حاتم نے کہا: "شیخ"
ان کے مقابلے میں امام نسائی نے کہا:"لیس بثقۃ"
حافظ ابن حجر نے کہا:"صدوق یخطی "
(مخلصا من تہذیب التہذیب 11؍227وتقریب التہذیب :7564)
جمہور کے مقابلے میں یہ جرح مردود ہے، لہذا ابو سعید الجعفی کی حدیث حسن لذاتہ ہے۔