کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 340
ان پر یحییٰ بن سعید ،احمد بن حنبل ،ابو حاتم ، نسائی ، البرقی اور ابو العرب نے جرح کی ہے۔ یحییٰ بن معین ، ابن عدی ، العجلی ، مسلم ،ابن حبان (وقال : يخطي) ابن شاہین اور یعقوب ابن سفیان وغیرہم نے ثقہ صدوق وصحیح الحدیث کہا ہے۔الحاکم اور ابوعلی الطوسی نے ان کی حدیث کو صحیح قراردیا ۔ ابن خزیمہ وغیرہ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہے: " يروى عنه ابن وهب نسخة صالحة۔۔۔۔۔لیس بحدیثہ باس " (مخلصاً من تہذیب الکمال مع الہامش 2؍347۔351،وتہذیب التہذیب 1؍209،210وغیرہما) ذہبی نے کہا:"الامام العالم الصدوق " (سیراعلام النبلاء 6؍342) اور کہا:"صدوق قوی الحدیث والظاہر انہ ثقہ" (معرفۃ الرواۃ المتکلم فیہم لایوجب الردللذہبی ص64رقم 26) بوصیری نے الزوائد میں ان کی ایک حدیث کو صحیح قراردیا ۔(سنن ابن ماجہ 2؍1014ح3052) زیلعی حنفی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔(نصب الرایۃ 3؍162) علی بن المدینی نے کہا:"کان عندناثقہ"(سوالات محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ، رقم 103ص98) محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ ثقہ ہیں اور ان پر جروح مردود ہیں۔ دیکھئے میری کتاب "الأسانيد الصحيحة في أخبار الإمام أبي حنيفة" (ص81) اور تحقیقی مقالات (ج1ص475) شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابن سید الناس سے نقل کیا کہ" اسنادہ حسن" (تعلیق المغنی 1؍252) یعنی اس کی ایک روایت بلحاظ سند حسن ہے۔ خلاصہ یہ کہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے، لہٰذا ان کی حدیث حسن ہے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: "وقد يرتقي حديثه إلى رتبة الحسن" اور ان کی حدیث حسن کے رتبے تک پہنچ جاتی ہے۔(سیراعلام النبلاء 6؍343) حافظ ابن حجر نے کہا:"صدوق یھم " (التقریب :317) حافظ صاحب امام ابن عدی رحمہ اللہ سے ایک راوی کے بارے میں میں نقل کرتے ہیں: "لم أر له متنا