کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 34
الجواب:الحمدللّٰه رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین،اما بعد!
یہ عقیدہ بالکل صحیح اور برحق ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کاکلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللّٰه ﴾
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی ایک تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے دو ،حتیٰ کہ وہ اللہ کاکلام سن لے۔ ‘‘ (سورۃ التوبہ:6)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم لوگوں کے سامنے جو قرآن پڑھتے تھے، وہ اللہ کا کلام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا:
﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ (الشعراء:192)
’’اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ألا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ ؟ فَإِنّ قُرَيْشاً قَدْ مَنَعُونِي أَن أُبَلّغَ كَلاَمَ رَبّي "
’’کیا کوئی آدمی مجھے اپنی قوم کے پاس نہیں لے جاتا؟کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام(لوگوں تک) پہنچانے سے روک دیا ہے۔‘‘
(سنن ابی داود:4734 وسندہ صحیح،الترمذی :2925 وقال:"حسن صحیح غریب"قلت:سالم بن ابی الجعد مذکور فی المدلسین ولا یثبت ھذا عنہ،انظر الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص39)
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے قر آن مجید کو اللہ کا کلام کہا۔ (دیکھئے کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص 239،240 وسندہ حسن، وقال البیہقی:"وھذا اسناد صحیح"دوسرا نسخہ ص 309)
جب سورۃ الروم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو مشرکین مکہ نے سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا:یہ تیرا کلام ہے یا تیرے ساتھی کاکلام ہے؟تو انہوں نے فرمایا:نہ یہ میرا کلام ہے اور نہ میرے ساتھی کا کلام بلکہ یہ تو اللہ عزوجل کاکلام ہے۔
(کتاب الاعتقاد للبیہقی تحقیق احمد بن ابراہیم ص108، وسندہ حسن،عبدالرحمان بن ابی الزناد وحسن الحدیث وثق الجمہور،الاسماء والصفات للبیہقی ص 239،240 دوسرا نسخہ ص309 تیسرا نسخہ ص 179 ،180 وقال البیہقی:"وھذا اسنادصحیح")
امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ (متوفی 198ھ) نے فرمایا:میں نے ستر(70)