کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 339
خلف إمامهم في المكتوبة:آمین " امام کے پیچھے آمین کہنا ہے۔
(الترغیب والترہیب ج1ص328،329، وقال "باسنادحسن "مجمع الزوائد، ج2ص113وقال ا:اسنادہ حسن)
اس طرح آمین بالجہر کی اور بھی بہت ساری روایات ہیں۔ دیکھئے میری کتاب ’’القول المتین فی الجہر بالتامین‘‘ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کا یہ دعوی بالکل صحیح ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین بالجہر کہنا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔‘‘ مانعین کے پیش کردہ دلائل وغیرہ صریح مبہم ضعیف اور بلا سند ہیں، لہٰذا صحیح ومتواتر احادیث کے مقابلے میں مردود وباطل ہیں۔
(صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا:
"نا محمد بن یحیی :نا ابو سعید الجعفی :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عن نافع عن ابن عمر كان : إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن عمر ورأى تلك السنة"
’’محمد بن یحییٰ رحمہ اللہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا ): ہمیں ابو سعید الجعفی نے حدیث بیان کی( کہا:) مجھے ابن وہب نے حدیث بیان کی (کہا:) مجھے اسامہ بن زید نے نافع رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے سورۃ فاتحہ پڑھتے ،پھر لوگ آمین کہتے تو آپ( رضی اللہ عنہ )بھی آمین کہتے اور اسے سنت قرار دیتے۔
(صحیح ابن خزیمہ1 ؍287،ح572)
سند کی تحقیق: نافع مولیٰ ابن عمر "ثقہ ثبت فقیہ مشہور"(التقریب :7086)
اسامہ بن زید (اللیثی ابو زید المدنی )صحیح مسلم کے راوی اور عند الجمہور ثقہ وصدوق تھے۔ابن وہب عن اسامہ بن زید عن نافع عن ابن عمر کی سند سے متعدد روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔(راجع تحفۃ الاشراف للمزی 6؍54،55)