کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 333
لوگوں کے آمین کہنے سے مسجد یں گونج اٹھتی تھیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2ص425)
اس کی سند صحیح ہے۔
6۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ یہودی لوگ امام کے پیچھے آمین کہنے پر (مسلمانوں سے شدید ) حسد کرتے تھے۔
مسند احمد (ج6ص134) واصلہ عندابن ماجہ (ج1ص278ح856)وسندہ صحیح )
یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔
7۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی حضرات مسلمانوں سے جن کاموں پر حسد کرتے ہیں، ان میں سے قابل ذکر تین ہیں:سلام کا جواب دینا، صفوں کا قائم کرنا اور فرض نمازوں میں امام کے پیچھے آمین کہنا۔(الاوسط للطبرانی ج5س473،486۔ح4908)
8۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی حدیث مروی ہے۔
(دیکھئے تاریخ بغداد (11،43)اور المختارہ للضیاءالمقدسی (45؍1)
9۔حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ (ابن ماجہ ج1ص287،ح854،الخلافیات مخطوط صفحہ 52)
10۔امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص426)
خلاصہ یہ کہ آمین بالجہر متواتر ہے جبکہ آمین بالسر کی خبر واحد متعدد وجوہ سے ضعیف ہے:
الف: اس میں اضطراب ہے۔ بعض نے شعبہ سے آمین بالجہر نقل کیا ہے۔
ب:شعبہ کو وہم ہوا ہے۔ج:یہ روایت ثقہ راویوں کے خلاف ہے۔
د:کسی صحابی سے جہری نمازوں میں خفیہ آمین کہنا ثابت نہیں ہے۔(شہادت، ستمبر 2000ء)
جہری نمازوں میں آمین بالجہر
سوال: جب ہم دیوبندی علماء سے آمین کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو یہ جواب ملتا ہے کہ اس وقت کے لوگ بھاگ جاتے تھے۔ اس لیے حکم ہوا کہ آمین کہو،تاکہ معلوم ہو کون کون نماز ادا کررہا ہے۔ کیا یہ صحیح کہتے ہیں؟(حاجی نذیر خان، دامان حضرو )