کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 332
فجهر بآمين" انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی۔(سنن ابی داؤد الصلوۃ باب التأمین وراءالا مام ح 933صحیح) اسے سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سلمہ بن کہیل سے"ورفع بها صوته" کے الفاظ سے روایت کیا ہے،اس کی سند حسن ہے اور متعدد شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔اس کے مقابلے میں شعبہ والی روایت میں سخت اضطراب ہے اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ اور جمہور محدثین نے اسے خطا اور ضعیف قراردیا ہے۔ خود امام شعبہ سے آمین بالجہر بھی مروی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب ’’مسئلہ آمین بالجہر‘‘(ص23تا31دوسرا نسخہ ص35،36) 2۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن، رفع صوته بآمين " ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورۃ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ1ص287، ج3ص148ح1806،المستدرک للحاکم ج1ص223وصححہ و وافقہ الذہبی الدارقطنی 1؍330و قال: ھذا اسناد حسن البیہقی وقال حسن صحیح بحوالہ التلخیص الحبیر 236اعلام الموقعین لا بن القیم 2؍397وصححہ ) اس کی سند امام زہری رحمہ اللہ تک حسن لذاتہ ہے لیکن یہ سند امام زہری رحمہ اللہ کے عن سے روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ زہری مدلس تھے۔ 3۔سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدی آمین بالجہر کہتے تھے۔(دیکھئے صحیح بخاری مع فتح الباری (ج2ص208قبل حدیث 780)اور مصنف عبدالرازق (2640) 4۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب امام کے پیچھے ہوتے تو سورۃ فاتحہ پڑھتے اور لوگوں کی آمین کے ساتھ(مل کر) آمین کہتے اور اسے سنت سمجھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ ج1ص287ح572) اس کی سند حسن لذاتہ ہے۔ 5۔عکرمہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہماری مسجدوں میں لوگ آمین کہتے تھے حتیٰ کہ