کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 331
سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے تو اب ایک مجمع میں بہت آدمی مل کر قرآن پڑھیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
(الکلام الحسین جلد دوم ص212مطبوعہ المکتبۃ الاشرفیہ ،جامعہ اشرفیہ لاہور)
بعض لوگ اس آیت کریمہ کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے فاتحہ خلف الامام سے منع کرتے ہیں حالانکہ اصول میں یہ مسئلہ مقرر ہے کہ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش نہیں کی جاسکتی ۔ مزید تفصیل کے لیے(امام بخاری کتاب جزء القراءۃ مع تحقیقی نصرالباری اور)جماعت اہل حدیث کے نامور عالم اور محقق مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحقیق الکلام فی وجوب قرآءۃ الفاتحہ خلف الامام ‘‘نیز میری کتاب ’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ‘‘ کا مطالعہ کریں۔(شہادت، فروری2000ء)
نماز میں آمین بالجہر
سوال: نماز میں آمین بالجہر کی دلیل پیش کریں؟(ایک سائل)
الجواب: اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ سری نمازوں میں آمین آہستہ(سراً)کہنی چاہیے ۔جہری نمازوں کی جہری رکعتوں میں تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور تابعین عظام کا مسلک یہ ہے کہ آمین بالجہر کہی جائے۔یہی تحقیق امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی ہے کہ جہری نمازوں میں آمین بالجہر کہنی چاہیے ۔( دیکھئے سنن ترمذی (الصلوٰۃ ،باب ماجاء فی التامین ح248)
صحیح مسلم کے مؤلف ،امام مسلم رحمہ اللہ نے اعلان فرمایا:
"قدتواترت الروايات كلها أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم جهر بآمين"
اور تمام روایات کے تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی ہے۔
(الاول من کتاب التمییز للامام ابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری ص40ح38)
ان متواتر روایات میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہےکہ "أنه صلى خلف رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم