کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 330
(مجہول) کا واسطہ ہے۔
نتیجۃ البحث:یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہٰذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے’’حسن ‘‘(ارواءالغلیل 2؍268)اور الموسوعۃ الحدیثیہ کے محشی کا"حسن بطرقہ وشواہدہ"کہنا صحیح نہیں ہے۔اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے معلول (التلخیص الحبیر2؍232ح345)اور قرطبی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تفسیر قرطبی 1؍122الباب الثانی فی نزو لھاواحکا مہا ،ای سورۃ الفاتحہ)
فائدہ:ہمارے شیخ، امام ابو محمد بدیع الدین لراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر "اظهار البراة عن حديث :" مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ"مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمدللہ۔(6؍محرم 1426ھ) (الحدیث:11)
"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا "کا مفہوم
سوال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ (الاعراف:204)اس سے کیا مراد ہے؟(عبدالستار سومرو،کراچی)
الجواب: جب قرآن مجید پڑھا جاتا تھا تو کفار شور مچاتے تھے اور کہتے تھے:
"لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ"
(1)یہ قرآن نہ سنو (اور شور مچاؤ(3)تاکہ غالب آجاؤ۔(حم السجدہ:26)
یہ آیت کریمہ بالاتفاق مکی ہے اور ان کافروں اور مشرکوں کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو تلاوت وتبلیغ قرآن کے وقت شور مچاتے تھے۔
دیکھئے تفسیر قرطبی (ج1ص121) البحرالمحیط لابی حیان الاندلسی (ج4س 448)التفسیر الکبیر للرازی (ج15ص104)فوائد القرآن لعبد الجبار بن احمد بحوالہ قرطبی (ج7ص354) عبدالماجددریا آبادی دیوبندی کی تفسیر ماجدی (ج2ص263)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا: ’’میرے نزدیک"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا" جب قرآن مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو تبلیغ پر محمول ہے اس جگہ قراءت فی الصلوٰۃ مراد نہیں ۔