کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 328
راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے جس نے ذکر کیا، اس کی بات ذکر نہ کرنے والے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔ اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بذات خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ عبد الرحمٰن المقری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "كان أبو حنيفة يُحدثنا، فإذا فرغ من الحديث، قال: «هذا الذي سمعتم كله ريحٌ وباطلٌ" ’’ابو حنیفہ ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت)سے فارغ ہوتے تو فرماتے :یہ سب کچھ جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم ج8ص450وسندہ صحیح) ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:’’میں تمھیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔‘‘ (العلل الکبیر للترمذی ج2ص966وسندہ صحیح والکامل لابن عدی 7؍2473،تاریخ بغداد 13؍425) ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا: "واللّٰه ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه" ’’اللہ کی قسم! مجھے(ان کے حق ہونے کا )پتا نہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن کے (باطل ہونے میں) کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ (کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ج2ص782وسندہ حسن ) اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابوں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابو الولید (مجہول )کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قراردیا ہو۔ واللّٰه اعلم وعلمہ اتم احمد بن حنبل رحمة اللّٰه عليه:"حدثنا اسود بن عامر:اخبرنا حسن بن صالح عن ابي الزبير عن جابر...الخ" (مسند احمد، الموسوعہ الحدیثیۃ 23؍12ح14643)