کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 325
آپس میں ٹکرا کر ساقط ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول ہر لحاظ سے باطل ہے۔
"فَاقْرَءُوا" سے قراءت خلف الامام کے استدلال پر اس حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اقْرَءُوا" تم پڑھو۔
(موطا امام مالک ج1ص85کتاب الصلوٰۃ القراۃ خلف الامام فیما لا یجھر بالقراۃ)
یادرہے کہ یہ "فَاقْرَءُوا" والا حکم جہری وسری دونوں نمازوں کو شامل ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جہری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام کا فتوی دیتے تھے۔دیکھئے مسند ابی عوانہ (ج2ص38)مسند حمیدی بتحقیقی (980)جزء القراءت للبخاری (56،135)آثار السنن(ص106)دوسرا نسخہ ص69)
یہاں پر چند باتیں مد نظر رکھیں:
1۔ "وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ" والی آیت بالا تفاق مکی ہے جبکہ فاتحہ خلف الامام والی روایات مدنی ہیں۔
2۔‘‘ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ" اصل میں مشرکین کے رد میں نازل ہوئی ہے۔دیکھئے تفسیر قرطبی (ج1ص121)
3۔غیر اہل حدیث حضرات امام کے پیچھے تکبیر تحریمہ:"اللّٰه اكبر‘ سبحانك اللهم "پڑھتے ہیں۔ صبح کی دو سنتیں ،عین جماعت کے وقت پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس وقت اس آیت کا حکم کہاں چلا جاتا ہے؟
4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آپ فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔ کیا اس آیت کا مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں تھا؟
5۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے کیا وہ اس آیت کے مفہوم سے واقف نہ تھے۔مزید تفصیل کے لیے مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کی کتاب’’تحقیق الکلام‘‘اور راقم الحروف کی کتاب’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ ‘‘ کا مطالعہ کریں۔(شہادت، نومبر2000ء)