کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 324
سوال: آپ نے’’شہادت‘‘ نومبر1999ء کے شمارہ میں’’سورۃ الفاتحہ خلف الامام‘‘کے بارے میں بہت سی احادیث تحریر فرما کر یہ ثابت کیا کہ مقتدی کو باجماعت نماز میں امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ لیکن کیا یہ تمام احادیث قرآن کی آیت سے تو نہیں ٹکرارہی ہیں؟ کہ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے اور خاموشی سے سنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ ادھر قرآن پاک میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں: قرآن سنو اور ادھر آپ احادیث سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ قرآن کو خود بھی پڑھو ۔براہ مہربانی ذرا واضح طور پر جواب تحریر فرمائیں کہ آیا مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے؟کیا یہ احادیث سے ثابت ہےاور حدیث قرآن کی اس آیت کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی کیونکہ حدیث تو ظن ہے جبکہ قرآن من جانب اللہ ہے۔(طارق محمود ،آصف شاہ اور طاہر،کراچی)
الجواب: احادیث صحیحہ کو ظنی کہنا غلط ہے بلکہ صحیح حدیث بھی قطعی الثبوت اور حتمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ محدثین کرام کی تحقیق ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لا بن کثیر (ص34)
صحیح حدیث قرآن کی طرح حجت ہے۔ جب دونوں شرعی دلیلیں ہیں اور حجت ہیں تو دلیل کے ساتھ دلیل کی تشریح و تخصیص کرنا جائز ہے حدیث حدیث کی، قرآن قرآن کی اور قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تشریح و تخصیص کرتے ہیں۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک حدیث کے ساتھ قرآن کی تخصیص کرنا جائز ہے۔دیکھئے الاحکام للامدی (ج2ص347)
قرآن پاک کی آیت کریمہ:
"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا....."
میں فاتحہ کی ممانعت کی صراحت نہیں ہے جبکہ فاتحہ خلف الامام والی حدیث میں فاتحہ کی صراحت ہے لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حدیث قرآن کی تخصیص کر رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ "سے بعض علماء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مقتدی پر قراءت فرض ہے۔
(دیکھئے نورالانوار(ص193)اور خلاصۃ الا فکار شرح مختصر المنار(ص197)
بلکہ حنفیہ کا ایک نرالا اصول ہے کہ یہ دونوں آیتیں: (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ اور فَاقْرَءُوا)