کتاب: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام - صفحہ 322
اسے دارقطنی رحمہ اللہ نے(1؍317ح 1197ح1198)بھی صحیح کہا ہے۔
7۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جہری (وسری)نماز میں فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔
(مسند الحمیدی :980وصحیح ابی عوانہ ج2ص38دوسرا نسخہ ج1ص357واصلہ فی صحیح مسلم)
8۔سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔
(جزء القراء للبخاری ص30،31،ح57نصر الباری ص162،163ح105)
اس کی سند حسن ہے۔(آثارالسنن ص172تحت حدیث :358للنیموی التقلیدی )
9۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ1؍374)
امام بیہقی نے کہا: "هذا إسناد صحيح لاغبار عليه" (کتاب القراءت ص198)
10۔عبادہ رضی اللہ عنہ کا ذکر سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
بعض لوگ فاتحہ خلف الامام کے خلاف بعض ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن میں فاتحہ کا ذکر نہیں اور نہ وہ اس مسئلے میں نص صریح ہیں بلکہ خود ان کا بھی دلائل پر عمل نہیں ہے۔مثلاً اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب سے پوچھا گیا کہ
’’ بسا اوقات اسی جگہ جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوتا (ہے از ناقل )جہاں جمعہ کی اکثر شرائط (جو حنفیہ کے ہاں ضروری ہیں)مفقود ہوتیں‘‘ تو انھوں نے جواب دیا:
’’ایسے موقعہ پر فاتحہ خلف الامام پڑھ لینا چاہیے تاکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کی بناء پر نماز ہو جائے۔‘‘ (تجلیات رحمانی 233از قاری سعید الرحمٰن دیوبندی )
یہاں پر انھوں نے حنفی مذہب چھوڑ کر تلفیق بین المذاہب کا ارتکاب کیا اور پھر "وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ..."الخ "وإذا قرأ فأنصتوا" کو بھول کر جہری نماز میں فاتحہ کے قائل ہو گئے۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون
حالانکہ حق یہی ہے کہ اس آیت کریمہ وحدیث پاک و دیگر دلائل کا تعلق فاتحہ خلف الامام سے نہیں ہے بلکہ ممانعت کلام یا ماعداالفاتحہ وغیرہما پر محمول ہے۔(شہادت ،جولائی 1999ء)